بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کھیل میں شرط لگانے کا حکم


سوال

ہمارے ہاں ایک بندہ بولتاہے کہ لڈو کھیلنے پہ کسی چیز کا شرط لگاؤ، جو بھی جیتاوہ  کھیلنے والےاور بغیر کھیلنے والے یعنی دیکھنے والوں کو کھلائے گا، میں نے کسی عالم سےپوچھاہے،اس نے کہا ہے جائز ہے، اس کا تفصیلی جواب چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ چند لوگوں کا آپس میں مل کر کسی ایسے کھیل میں بغیر شرط لگائے ہار جیت کا مقابلہ کرنا کہ جس کھیل میں کوئی جسمانی یا دینی فائدہ ہو تو جائز ہے،جس کھیل میں کسی قسم کا دنیوی،دینی یا جسمانی فائدہ نہ ہو،بلکہ اس کو محض وقت گزاری کےلیے کھیلا جائے تو ایسا کھیل مکروہ ہے اور اگر اس سے کسی فرض یا واجب میں کوتاہی پیداہو تو ایسا کھیل کھیلنا حرام ہے،جہاں تک شرط لگانے کی بات ہے تو اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر کسی کھیل سے جہاد کی ترغیب مقصد ہو،یا اس کوکھیلنےسے جہاد کی اعانت ہوتی ہو تو اس میں شرط لگانا جائز ہے،بشرط یہ کہ  شرط ایک طرف سے ہو،دونوں طرف سے نہ ہو،اگر دونوں طرف سے ہوگی تو یہ ناجائز ہے،اسی طرح یہ شرط بھی نہ ہو کہ کھیل میں جو بھی جیتاوہ فلاں چیز کا حق دار ہوگا یا اس پر فلاں کام لازم ہے،اگر اس طرح ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے،اس کے علاوہ جو کھیل اس طرح کے نہ ہوں ان میں شرط لگانا مطلقاً ناجائز ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رُو سےصورتِ مسئولہ میں اگرلڈو میں شریک افراد میں سے ایک نے یہ کہاکہ ’’اس کھیل میں شریک افراد میں سے جو بھی کھیل جیتے گا،وہ کھیلنے والوں اور دیکھنے والوں سب کو کھانا کھلائے گا‘‘،تو  یہ جائز نہیں،اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقم کو استعمال کرنا ناکھیل میں شریک ہونے والے کے لیے جائز ہے اور نہ ہی تماشائیوں کے لیے جائز ہے،باقی لڈو کھیل میں اگر شرط نہ بھی لگائی جائے تب بھی لڈو کھیلنا جائز نہیں ہے۔

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"(و) كره تحريما (اللعب بالنرد و) كذا (الشطرنج) بكسر أوله ويهمل ولا يفتح إلا نادرا وأباحه الشافعي وأبو يوسف في رواية...وهذا إذ لم يقامر ولم يداوم ولم يخل بواجب وإلا فحرام بالإجماع(و) كره (‌كل ‌لهو) لقوله عليه الصلاة والسلام"كل ‌لهو المسلم حرام إلا ثلاثة: ملاعبته أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته بقوسه."

(ص:٣٩٤،ج:٦،کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ط:ايج ايم سعيد)

وفیه ايضا:

"قوله فيباح كل الملاعب: أي التي تعلم الفروسية وتعين على الجهاد، لأن ‌جواز ‌الجعل فيما مر إنما ثبت بالحديث على خلاف القياس، فيجوز ما عداها بدون الجعل...قوله ومفاده لزومه بالعقد: انظر ما صورته. وقد يقال معنى قوله لعدم العقد: أي لعدم إمكانه على أن ‌جواز ‌الجعل فيما ذكر استحسان قال الزيلعي: والقياس أن لا يجوز لما فيه من تعليق التمليك على الخطر، ولهذا لا يجوز فيما عدا الأربعة كالبغل وإن كان الجعل مشروطا من أحد الجانبين."

(ص:٤٠٣،ج:٦،کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ط:ايج ايم سعيد)

وفيه ايضا:

"‌ ‌لو ‌قالا: من ظهر معه الصواب منا فله على صاحبه كذا فلا يصح، لأنه شرط من الجانبين وهو قمار إلا إذا أدخلا محللا بينهما."

(ص:٤٠٤،ج:٦،کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ط:ايج ايم سعيد)

"ألفتاوي الهندية"میں ہے:

"وحرم شرط ‌الجعل من ‌الجانبين لا من أحد ‌الجانبين، ومعنى شرط ‌الجعل من ‌الجانبين أن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك كذا وهو قمار فلا يجوز، وإذا شرط من جانب واحد بأن يقول: إن سبقتني فلك علي كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي عليك جاز استحساناولا يجوز فيما عدا الأربعة المذكورة في الكتاب كالبغل، وإن كان ‌الجعل مشروطا من أحد الجانبين... ولو شرطا الجعل من الجانبين وأدخلا ثالثا محللا جاز إذا كان فرس المحلل كفؤا لفرسيهما يجوز أن يسبق ويسبق، وإن كان يسبق أو يسبق لا محالة فلا يجوز،... والمراد بالجواز المذكور في باب المسابقة الحل دون الاستحقاق حتى لو امتنع المغلوب من الدفع لا يجبره القاضي ولا يقضي عليه به."

(ص:٤٤٦،ج:٦،مسائل شتی،ط:دار الفکر،بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411101651

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں