بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اُجرت متعین کرکے وعظ کرنا جائز ہے؟


سوال

اُجرت متعین کرکے وعظ کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہےکہ وعظ وتقر یر کرنادین کی تبلیغ ہے ،یہ بلا معاوضہ ہونی چاہیے، تاہم اگر کسی نے اپنے آپ کو اس مقصد کےلیے فارغ کیا ہو ا ہے،کہ وہ اُجرت متعین کرکےوعظ اورتقریرکرنےکےلیے جو بھی بلا ئے اس کے ہاں جاکر وعظ کہتا ہے ،تو ایسا شخص  وعظ تو فی سبیل اللہ کرے اور اپنے وقت دینے پر معاوضہ لے تو  شرعی طورپر اس کی گنجائش ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان....وزاد بعضهم الأذان والإقامة ‌والوعظ ....ويجبر المستأجر على دفع ما قبل) فيجب المسمى بعقد وأجر المثل إذا لم تذكر مدة."

(كتاب الإجارة، ‌‌باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الإستئجار على الطاعات، ج:6، ص:56،55، ط: سعيد)

الفتاویٰ البزازیہ میں ہے:

"ألاستئجار على الطاعات كتعليم القرآن، والفقه، والتدريس، والوعظ لايجوز، والمتأخرون على جوازه.... وفتوى علماءنا" أن الإجارة إن صحت يجب المسمى، وإن لم تصح يجب أجر المثل....والحيلة: أن يستأجر المعلم مدة معلومة ثم يأمره بتعليم ولده."

(كتاب الإجارة، نوع فى تعليم القرآن، ج:5، ص:37، 38، ط: رشيدية)

فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:

"(سوال)واعظ کووعظ کہنے پرلیناکیساہےیعنی بغیرلیے وعظ نہیں کہتا؟

(جواب)واعظ کی اجرت کوبھی بسبب ضرورت کے متاخرین نےجائز لکھاہے۔"

(زیرعنوان:وعظ کرنے کےلیے نذرانہ لینا، کتاب الاجرۃ، ص:510، طبع عالمی مجلس تحفظ اسلام کراچی پاکستان)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال:تقریرکےلیےجوروپےپیش کئےجاتےہیں،ان کالیناکیساہے؟

الجواب حامداً ومصلیاً:

مستقلاًملازمت اورماہانہ تنخواہ لینا درست ہے،ایک تقریرپر درست نہیں۔"

(زیرعنوان:تقریرکرانے پراُجرت ، کتاب الاجارۃ، باب الاستجار علی الطاعات، ج:23، ص:400، طبع:ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"(سوال):زید کہتاہے کہ وعظ کرکےاجرت لیناجائز ہے،کیوں کہ اگرہم اجرت نہ لیں توہم اپنی ضروریات پوری نہیں کرسکتے،اس لیے ہم حبس وقت کی اجرت لیتےہیں،عمرکہتاہےکہ اگر وعظ کرکےاجرت لیناجائز ہوتوتلاوت قرآن کرکےبھی اجرت لیناجائزہوناچائیے،کیوں کہ وعظ کرناجیسےطاعت ہے،ایساہی تلاوت قرآن بھی طاعت ہے،جب وعظ کہہ کرحبس وقت کی وجہ سےاجرت لیناجائز ہے ایساہی تلاوت قرآن کرکےبھی حبس وقت کی وجہ سےجائز ہوناچائیے،آیازید کاقول صحیح ہےیاغلط،اگرصحیح ہےتوکس صورت میں جائز ہے؟

الجواب حامداًومصلیاً:

استیجار علی الطاعات اصالۃً ناجائز ہے،مگرمتاخرین نےحسب اجتہاد ضرورتِ شرعیہ کالحاظ رکھتےہوئےبعض طاعات کومستثنیٰ کیاہے،ان میں سےوعظ بھی ہے،اوروجہ جواز "حبس"کوقرار نہیں دیا،"بلکہ ضرورت شرعیہ"کوقراردیاہے،اگرسلسلہ وعظ بندہوجائےتونقصان عظیم لازم آئےگا،کیوں کہ ہرایک کےپاس نہ اس قدروقت ہے،نہ قدرت کہ مدارس میں داخل ہوکر باقاعدہ علم حاصل کرے۔اورنفسِ تلاوت قرآن کریم میں وہ ضرورت موجود نہیں،کیوں کہ اگرکسی کےلیے کوئی شخص تلاوت کرکےایصال ثواب نہ کرےتودین کےکسی جز میں نقصان نہیں آتااورنفس ثواب کسی سبب سےیابغیر سبب ادعیہ شاملہ سے پہونچتارہتاہے۔"

(زیرعنوان:تلاوت اوروعظ پراجرت، کتاب الاجارۃ، باب الاستیجار علی الطاعات، ج:17، ص:90، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں