بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خیبر کی جنگ سے واپسی کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز قضا ہونا


سوال

وادی القری اور تیماء کی فتح کے بعد مدینہ واپسی پر آپ ﷺ اور صحابہ کرام کی کون سی نماز قضا ہوئی تھی؟

جواب

رسولِ اکرم ﷺ  اور  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی   خیبر کی جنگ سے واپسی کے موقع پر  (خیبر کی لڑائی سے فارغ ہو کر حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ” وادی القریٰ ” تشریف لے گئے تھے ، جو مقام “تیماء” اور “فدک” کے درمیان ایک وادی کا نام ہے، اس کے بعد مدینہ کی طرف واپسی ہوئی تھے)  رات کے آخری پہر آرام کے لیے لیٹے تو   اللہ تعالیٰ کے تکوینی فیصلہ کے تحت  فجر کی نماز میں آنکھ نہیں کھل سکی اور آپ ﷺ اور صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فجر کی نماز قضا ہوگئی،  پھر   آپ ﷺ اور صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کی قضا  کی، یہ واقعہ  "لیلۃ التعریس" کے نام سے  مشہور ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 575):

" وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قفل من غزوة خيبر سار ليلة حتى إذا أدركه الكرى عرس وقال لبلال: " اكلأ لنا الليل. فصلى بلال ما قدر له ونام رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه فلما تقارب الفجر استند بلال إلى راحلته موجه الفجر فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلى راحلته فلم يستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا بلال ولا أحد من أصحابه حتى ضربتهم الشمس فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أولهم استيقاظا ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «أي بلال» فقال بلال أخذ بنفسي الذي أخذ بنفسك قال: «اقتادوا» فاقتادوا رواحلهم شيئا ثم توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم وأمر بلالا فأقام الصلاة فصلى بهم الصبح فلما قضى الصلاة قال: " من نسي الصلاة فليصلها إذا ذكرها فإن الله قال (أقم الصلاة لذكري)رواه مسلم."

فيض الباري على صحيح البخاري (2 / 187):

"ثم إن واقعة ليلة التعريس واحدة عند القفول من خيبر ولا بد. ومنهم من زعم أنها متعددة نظرًا إلى تغاير الألفاظ وتصرفات الرواة وهو بعيد عندي."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں