بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خضر علیہ السلام کی بڑی انگلی میں ہڈی نہ ہونے اور آپ سے ملاقات سے متعلق سوال


سوال

خضر علیہ السلام کے بارے  میں مشہور ہے کہ اس کی  بڑی انگلی میں ہڈی نہیں  ہے،تو کیا یہ بات حقیقت پر مبنی ہے؟دوسرا یہ کہ وہ روزانہ دن میں ایک نہ ایک شخص کے ساتھ ملاقات کرتا ہے، تو یہ بھی درست ہے  کہ نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ محدثین کی ایک جماعت حضرت خضر علیہ السلام کی  اس وقت دنیاوی حیات کا انکار کرتی ہے،  جب کہ جمہور علماء و صلحاء  حضرت خضر علیہ السلام کی  حیات  کے  قائل  ہیں، لہذا خضرعلیہ السلام سے ملاقات ممکن ہے، لیکن روزانہ کسی نہ کسی سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کی  بڑی انگلی میں ہڈی نہیں ہے، ان معلومات  کا دینی یا دنیوی کوئی فائدہ  نہیں ہے اس لیے اپنے آپ کو اہم کاموں میں مصروف کرنا چاہیے اور اس جیسے سوالات سے گریز کرنا چاہیے۔

لمعات شرح مشکاۃ میں ہے:

"‌والصحيح ‌أنه ‌نبي معمر محجوب عن الأبصار، وأنه باق إلى يوم القيامة لشربه من ماء الحياة، وعليه الجماهير واتفاق الصوفية، وكثير من الصالحين، وأنكر جماعة."

(كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق، باب بدء الخلق وذكر الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، الفصل الأول، ج:9، ص:188، ط:دار النوادر)

عمدۃ القاری میں ہے:

"والصحيح أنه نبي، وجزم به جماعة. وقال الثعلبي: هو نبي على جميع الأقوال معمر محجوب عن الأبصار، وصححه ابن الجوزي أيضا في كتابه، لقوله تعالى حكاية عنه: {وما فعلته عن امري} (الكهف: 82) فدل على أنه نبي أوحي إليه، ولأنه كان أعلم من موسى في علم مخصوص، ويبعد أن يكون ولي أعلم من نبي وإن كان يحتمل أن يكون أوحي إلى نبي في ذلك العصر يأمر الخضر بذلك، ولأنه أقدم على قتل ذلك الغلام، وما ذلك إلا للوحي إليه في ذلك. لأن الولي لا يجوز له الإقدام على قتل النفس بمجرد ما يلقى في خلده، لأن خاطره ليس بواجب العصمة. السادس: في حياته: فالجمهور على أنه باق إلى يوم القيامة."

(كتاب العلم، باب ما ذكر في ذهاب موسى صلى الله عليه في البحر إلى الخضر، ج:2، ص:60، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں