بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خیار عیب کی بنا مبیع واپس کردی جائے تو اس سے بیع فسخ ہوجاتی ہے نہ کہ کالعدم


سوال

ہم نے آپ حضرت کی خدمت میں ایک مسئلہ ارسال کیا تھا، جس میں یہ معلوم کیا تھا کہ:

زید نے نذر مانی تھی کہ اگر میری گاڑی فروخت ہوگئی تو میں پانچ ہزار روپے صدقہ کروں گا، گاڑی فروخت ہوگئی، لیکن  تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے زید نے پانچ ہزار کی رقم صدقہ کرنے میں ایک ماہ تاخیر کی، اتنے میں مشتری نے گاڑی یہ کہہ کر واپس کردی کہ  اس کے کاغذات ڈبلی کیٹ (فوٹو کاپی) ہے، زید نے ابھی تک پانچ ہزار روپے نذرکے مطابق صدقہ نہیں کیا تھا کہ گاڑی عیب کی وجہ سے واپس کردی گئی، کیا اب زید کے ذمہ پانچ ہزار روپے صدقہ کرنا لازم ہے یا نہیں؟ 

اس كے جواب ميں آپ حضرات نے (فتوی نمبر :144401102038میں )لكھا ہے کہ صورت مسئولہ میں عقد بیع تام ہوگیا، لہٰذا بیع کی تعریف اور تمام شرائط پائی گئی ہے، لہٰذا زید پر پانچ ہزار روپے  کا صدقہ کرنا واجب ہے۔

جب کہ جامعہ دار العلوم کراچی (فتوی نمبر:32/2282)اور جامعہ عثمانیہ پشاور (فتوی نمبر:4517/297/328)ان دونوں اداروں کا موقف اس مسئلہ کے بارے میں یہ ہے کہ عیب کی بناء پر جب گاڑی واپس ہوگئی اور زید کا مقصد حاصل نہیں ہواہے، اس لیے زید پر نذر پوری کرنا یعنی پانچ ہزار روپے کا صدقہ کرنا واجب نہیں ہے، ان فتووں کی کاپی ساتھ منسلک ہے۔

برائے مہربانی مذکورہ فتاوی کے دلائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگر تعارض کو رفع کردیں اور  بندہ کی الجھن کو دور کردے تو نوازش ہوگی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید نے اس طرح سے نذر مانی ہے کہ  اگرکارفروخت ہوگئی تو پانچ ہزارروپےصدقہ کروں گا، چوں کہ زید نے پانچ ہزار روپے کی صدقہ کو گاڑی کے فروخت ہونے پر معلق کیا تھا، جیسے ہی ایجاب وقبول ہوگیا اور گاڑی فروخت ہوگئی تو نذر کا پورا کرنا یعنی پانچ ہزار روپے کا صدقہ کرنا واجب ہوگیا،کیونکہ بیع میں جب خیار رؤیت اور خیار شرط نہ لگائی گئی ہو تو ایجاب وقبول سے ہی  بیع تام  ہوجاتی ہے،  لہٰذا بیع تام ہوتے ہی شرط پائی گئی اور  زید کے ذمہ پانچ ہزار روپے کا صدقہ کرنا واجب ہوگیا۔

رہی یہ بات کہ "خیارِ عیب  کی بناء پر مبیع واپس کرنے سے بیع کالعدم شمار ہوتی ہے"تو یہ بات درست نہیں اور اس بارے میں تفصیل  یہ ہے کہ خیارِ عیب کی بناء پر  مبیع واپس کرنا شرعاً یہ فسخِ بیع  کہلاتاہے،  اور بیع تب ہی فسخ ہوتی ہے جب بیع ہوچکی ہو،فسخ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ عیب ہونے کی بناء پر مبیع کو واپس کرنے کے لیے بائع اور مشتری دونوں کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اگر یہ بیع کالعدم شمار کی جاتی تو  عیب دار مبیع کو واپس کرتے وقت بائع اور مشتری دونوں کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی، چنانچہ الموسوعۃ الفقہیۃ کویتیۃ میں ہے:

"فلو فسخ بغير علمه لم يعتبر، وكان له الرجوع عن فسخه وكان ذلك الفسخ موقوفا.......ويعبر بعض الفقهاء عن شريطة العلم هذه بقولهم: أن يجيز - أو يفسخ - في حضرة صاحبه، وهم مجمعون أن المراد من الحضرة العلم وليس الحضور،واشتراط العلم للفسخ في خيار العيب متفق عليه بين أئمة الحنفية سواء أكان الرد قبل القبض أم بعده".

(خیار العیب، أثر خیار العیب علی حکم العقد، ج:20، ص:134، ط:وزارۃ الأوقاف للکویت)

وفیہ ایضاً:

"أما إذا كانت الصفقة قد تمت، فالرد لا يكون مجرد نقض وانفساخ تكفي فيه إرادة صاحب الخيار، بل هو فسخ لصفقة تمت فلا بد فيه من التراضي أو التقاضي، ويعلل الكاساني ذلك بأن الصفقة قد تمت بالقبض فلا تحتمل الانفساخ بنفس الرد من غير قرينة القضاء أو الرضا. وبعبارة السرخسي: " الفسخ بعد تمام الصفقة نظير الإقالة، وهي لا تتم إلا باتفاق العاقدين " ولا فرق في الرد بين وقوعه قبل القبض أو بعده".

(خیار العیب، أثر خیار العیب علی حکم العقد، ج:20، ص:135، ط:وزارۃ الأوقاف للکویت)

اور دوسری بات یہ ہے کہ عیب کی بناء پر مبیع واپس کردی جائے تو یہ اقالہ ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا عبارت "وبعبارة السرخسي: " الفسخ بعد تمام الصفقة نظير الإقالة، وهي لا تتم إلا باتفاق العاقدين"سے معلوم ہوا  کہ اقالہ ہے، اور احناف کے ہاں اقالہ  بائع اور مشتری کے حق میں فسخ ہے، جب کہ تیسرے کے حق میں بیعِ جدید ہے، حتی کہ زمین اور مکان کے معاملہ میں اگر مشتری کسی عیب کی بنا  پر بیع فسخ کرنا چاہے  تو مشتری کی پڑوسی کو  شفعہ کا حق حاصل ہوگا، اگر خیارِ عیب کی بنا  پر یہ بیع کالعدم شمار کی جاتی تو اس مبیع کو واپس کرتے وقت کسی تیسرے کو شفعہ کا حق حاصل نہیں ہوتا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان بعد القبض لا ينفسخ إلا برضا أو قضاء ثم إذا رده برضا البائع كان فسخا في حقهما بيعا في حق غيرهما".

(کتاب البیوع، الباب الثامن فی خیار العیب، ج:3، ص:66، ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو رد بخيار رؤية أو شرط أو عيب بقضاء) متعلق بالأخير فقط خلافا لما زعمه المصنف تبعا للدرر (بعدما سلمت) أي إذا بيع وسلمت الشفعة ثم رد المبيع بخيار رؤية أو شرط كيفما كان أو بعيب بقضاء فلا شفعة لأنه فسخ لا بيع (بخلاف الرد) بعيب بعد القبض (بلا قضاء أو بإقالة) فإن له الشفعة، لأن الرد بعيب بلا قضاءوالإقالة بمنزلة بيع مبتدأ".

(کتاب الشفعة، باب ماتثبت الشفعة فیه أو لا تثبت، ج:6، ص:238، ط:سعید)

رہی یہ بات کہ "نذر کا دار و مدار عرف پر ہے"  اس کا مطلب یہ ہے کہ نذر منعقد ہونے کے لیے عرف کا اعتبار ہوگا کہ اس طرح کہنے سے نذر منعقد  ہوگی یا نہیں، چوں کہ  مذکورہ مسئلہ میں بالاتفاق بیع ہوتے ہی شرط پائی گئی اورنذر منعقد  ہوگئی ہے، لہٰذا دوبارہ خیار عیب کی بنیاد پر اس نذر کو ختم نہیں کیا سکتاہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101611

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں