بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عوتوں کی امامت کا حکم


سوال

کیا عورتوں کی امامت جائز  ہے؟ اگر جائز نہیں  ہے اور مکروہ ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے امامت کیوں کرائی تھی، پھر عورتوں کی امامت مکروہ کیسے ہوگئی؟ حوالے کے ساتھ وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ خواتین کی امامت مردوں کے لیے جائز ہی نہیں اور  خواتین کی خواتین کے لیے امامت مکروہ تحریمی ہے۔احادیث مبارکہ میں بہت سی ایسی   روایات  ہیں  جن میں عورتوں کی جماعت سے خیر کی نفی کی گئی ہے۔

چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا   سے  روایت   ہے: 

"عن عائشة أنّ رسول الله صلى الله عليه و سلّم قال: لا خير في جماعة النساء إلّا في المسجد أو في جنازة قتيل."

(إعلاء السنن،باب کراهة جماعة النساء، ص/242، ج/4، ط/ إدارۃ القرآن)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عوتوں کی جماعت میں کوئی خیر نہیں ہے مگر یہ ہے کہ وہ جماعت مسجد میں (مردوں کی جماعت کے ساتھ ) ہو یا کسی شہید کی نماز جنازہ کی جماعت ہو۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت   ہے:

"عن علي ابن أبي طالب انه قال لا تؤم المرأة."

            (إعلاء السنن، باب کراهة جماعة النساء، ص/242، ج/4، ط/ إدارۃ القرآن)

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عورت امامت نہیں کرائے گی۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "‌صلاة ‌المرأة ‌في ‌بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها، و صلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها."

(باب ما جاء في خروج النساء إلی المساجد، ص/93، ج/1، ط/رحمانیہ)

ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے  عورت کا گھر كے اندر(یعنی دالان میں) نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور کوٹھری میں نماز پڑھنا کھلے ہوئے مکان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔

صحیح ابن خزیمہ میں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إنّ أحبّ صلاة تصليها المرأة إلى الله ‌في ‌أشدّ ‌مكان ‌في ‌بيتها ظلمة."

(باب أمرالنساء بخفض أبصارهنّ، ص/816، ج/2، ط/المکتب الإسلامي)

ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ  اللہ تعالی کے ہاں عورت کی سب سے زیادہ پسندیدہ نماز  وہ ہے جو عورت اپنے گھر کے پوشیدہ جگہ میں ادا کرے ۔

چنانچہ ان روایات کی وجہ سے احناف کی اکثریت نے عورتوں کی امامت  عورتوں کے لیےمکروہ قرار دیا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يكره تحريمًا (جماعة النساء) و لو التراويح في غير صلاة جنازة (لأنها لم تشرع مكررة)."

(باب الإمامة، ص/565، ج/1، ط/سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وجماعة النساء) أي وكره جماعة النساء؛ لأنها لاتخلو عن ارتكاب محرم و هو قيام الإمام وسط الصف فيكره."

(باب الإمامة، ص/372، ج/1، ط/دار الکتاب الإسلامي)

حاشیہ طحطاوی میں ہے:

"و كره جماعة "النساء" بواحدة منهن و لا يحضرن الجماعات؛ لما فيه من الفتنة و المخالفة."

(باب من أحقّ بالإمامة، ص/304، ط/دار الکتب العلمیة)

البتہ احادیثِ  مبارکہ میں  جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی امامت کا ذکر ہے،تو وہ ان کا کوئی مستقل معمول نہیں تھا ،بلکہ  آپ کا یہ  عمل   امت کی عورتوں کی تعلیم اور ان کو نماز سکھانے کے لیے تھا ۔نیز آپ رضی اللہ تعالی عنہا  کا عمل بیانِ  جواز  (یعنی جس عمل کا جواز شارع کی طرف سے ثابت ہوگیا تھا، لیکن دیگر خواتین کو علم نہیں تھا، اس کے اِظہار و بیان) کے لیے تھا کہ اگر کبھی اس طرح کی صورتِ حال پیش آگئی کہ عورتوں نے آپس میں جماعت سے نماز پڑھی تو امام درمیان میں کھڑی ہوگی اور یہ نماز ہوجائے گی ،اگرچہ   ایسا کرنا مکروہ ہے ،جیسا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے اپنے   قول "عورتوں کی جماعت میں کوئی بھلائی نہیں "  سے واضح ہے  ۔

چنانچہ المحلی بالآثار لابن حزم  میں ہے:

"و عن يحيى بن سعيد القطان عن زياد بن لاحق عن تميمة بنت سلمة عن عائشة أم المؤمنين: ‌أنها ‌أمت ‌نساء ‌في ‌الفريضة في المغرب، وقامت وسطهن."

(مسألة صلین جماعة، ص/168، ج/2، ط/دار الفکر)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :انہوں نے مغرب کی فرض نماز میں عورتوں کی امامت کی، اور  (صف میں) ان کے درمیان کھڑی ہوئیں۔

اعلاء السنن میں ہے:

"قلنا هذا إذا لم يمكن الجمع بين عمله و روايته، و هذا ليس كذلك، فإنّ الجمع بينهما ممكن بأنّ روايتها تدلّ على كراهة جماعة النساء، و عملها على نفس الإباحة، و كراهة شيء لاتنافي جوازه، كما لايخفي، فلعلّها أمّت النساء أحيانًا لبيان الجواز، أو لتعليم النساء صفة الصلاة."

(باب کراهة جماعة النساء، ص/242، ج/4، ط/ إدارۃ القرآن)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144303100940

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں