بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خواتین کی اجتماعی قرآن خوانی کا حکم


سوال

ہمارے یہاں رواج ہے کہ چند عورتیں مل کر" یس" شریف یا کوئی دینی اجتماع یا قرآن کریم کی تلاوت کے لیے جمع ہوجاتی ہیں اور اس کے بعد ایک عورت اجتماعی دعا کراتی ہے، کیا یہ طریقۂ کار صحیح ہے یا غلط؟ 

جواب

ایصالِ ثواب یا کسی جائز مقصد کے لیے انفرادی طور پر قرآن مجیدکی تلاوت کرنا نہ صرف جائز، بلکہ مستحب ہے، اور انفرادی طور پرقرآن ختم کرنے کے بعد گھر کے افراد کو جمع کرکے اجتماعی دعا کرنا بھی جائزہے، لیکن قرآن خوانی یا"یس" شریف کے ختم کے لیے باقاعدہ اہتمام والتزام کے ساتھ اجتماع ثابت نہیں، خصوصاًعورتوں کا اس مقصد کے لیےاپنے گھروں سے نکلنا اور اجتماع کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے،  اگرچہ جمع ہونے والی خواتین ایک ہی علاقہ کی ہوں اور  دور علاقوں سے نہ آتی ہوں،  البتہ اگر کبھی کبھار اتفاقی طور پر بغیر کسی التزام واہتمام کے گھر کی خواتین جمع ہوجائیں اور وہ تلاوت کرکے ایصالِ ثواب کریں تو اس کی گنجائش ہے، اس میں بھی دعا اتنی بلند آواز سے نہ  کی جائے جو گھر سے باہر سنی جائے۔

المعجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

"عن ثابت، «أن أنس بن مالك، ‌كان ‌إذا ‌ختم ‌القرآن جمع أهله وولده، فدعا لهم»."

(باب الألف، أنس بن مالك، صفة أنس بن مالك، 242/1، ط: مكتبة ابن تيمية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، 240/2، ط: سعید)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال الطيبي: وفيه أن ‌من ‌أصر ‌على ‌أمر ‌مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟."

(كتاب الصلاة، باب الدعاء في التشهد،755/2، ط: دارالفکر)

آپ کے مسائل اور اُن کا حل میں ہے:

"ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کےلیے دعوت کرنا اور صلحاء وقراء کو ختم کے لیےیا سورۂ انعام یا سورۂ اخلاص کی قراء ت کے لیے جمع کرنا مکروہ ہے۔"

( ایصالِ ثواب، میت کو ایصال ثواب پہنچانے کا صحیح  طریقہ، 430/4، ط: مکتبہ لدھیانوی)

 وفیہ ایضًا: 

"دوسرا مسئلہ یہ  ہے کہ اپنے طور پر ہمیشہ آدمی اپنے اکابر کو، متعلقین کو، احباب کو ثواب پہنچانے کا ہتمام رکھے اور دوسرے حضرات اگر کسی وقت جمع ہوجائیں، تو بغیر اہتمام کے وہ بھی پڑھ سکتے ہیں، لیکن قرآن خوانی کے لیے کوئی وقت مقرر کرنا اور اس پر لوگوں کو بلانا، شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی اور جو چیز شریعت سے ثابت نہ ہو، اُس کو اپنی طرف سے شروع کرناصحیح نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔"

( ایصالِ ثواب، کسی کے مرنے پر رشتہ دارروں کا قرآن خوانی کرنا، 431/4، ط: مکتبہ لدھیانوی)

وفیہ ایضًا:

"جتنا قرآن مجید پڑھنا ہو، اپنے گھر پر پڑھ لیا کریں، لوگوں کے گھروں میں جاکر قرآن مجید نہ پڑھا کریں، یہ جو عورتوں میں قرآن خوانی کا رواج ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ غلط پڑھتی ہیں، بہتر ہوگا کہ اپنے اپنے گھر میں قرآن کریم پڑھا کریں اور اس کاثواب مرحومین کو بخش دیا کریں۔"

( ایصالِ ثواب،قرآن خوانی میں غیر پڑھے ہوئے پاروں کو پڑھے ہوئے پاروں میں رکھنے کا کفارہ، 432/4، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں