بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خواتین کے لیے بازار میں ٹھہری ہوئی کار میں بیٹھے بیٹھے فرض نماز پڑھنے کا حکم


سوال

کیا خواتین کسی ٹھہری ہوئی کار کے اندر فرض نماز پڑھ سکتی ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ اکثر بازار میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے، اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے نماز قضاء ہوجاتی ہے، تو کیا گاڑی کو روک کر اس میں ہی بیٹھے بیٹھے فرض نماز کی ادائیگی کرلی جائے، تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟ کیا عورتوں کو کھلے میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے، اور جگہ کا پاک ہونا باہر ممالک میں مشکل ہوتا ہے، برائے کرم راہنمائی فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ تندرست شخص کی  فرض نماز صحیح ہونے کے لیے قیام، رکوع، سجدہ  کرنا ضروری ہےاور اسی طرح قبلہ رو ہونا ضروری ہے،اس لیے اگر تندرست  بیٹھے بیٹھے فرض نماز بغیر قیام، رکوع وسجود کے پڑھ لے تو نماز درست نہ ہوگی، بلکہ اس کادہرانا لازم ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں کار کے اندر فرض نماز جائز نہیں ، بلکہ کسی مناسب جگہ  پر  اتر کر نماز پڑھنالازم ہوگا، ورنہ نماز ادا نہیں ہوگی، باقی اگر زمین پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو تو اس پر نماز پڑھی جا سکتی ہیں، لیکن اگر کوئی خشک نجاست ہوبھی، تو زمین پر کپڑا بچھاکر نماز پڑھ لی جائے، لیکن بغیر کسی شرعی عذر کے کار کے اندر بیٹھ کر نماز پڑھنے سے وہ ادا نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ويتنفل المقيم راكبا إلخ) أي بلا عذر، أطلق النفل فشمل السنن المؤكدة إلا سنة الفجر كما مر، وأشار بذكر المقيم أن المسافر كذلك بالأولى؛ واحترز بالنفل عن الفرض والواجب بأنواعه كالوتر والمنذور وما لزم بالشروع والإفساد وصلاة الجنازة وسجدة تليت على الأرض فلا يجوز على الدابة بلا عذر لعدم الحرج كما في البحر."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب الوتر والنوافل، ج: 2، ص: 38، ط: سعيد)

العنایہ میں ہے:

"‌أن ‌الفريضة لا تجوز على الدابة فلا يصلي المسافر المكتوبة على الدابة إلا من عذر."

(كتاب الصلاة، باب النوافل، ج: 1، ص: 463، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومنها القيام)... (في فرض) وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح (لقادر عليه) وعلى السجود... (ومنها الركوع)... (ومنها السجود)."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صفة الصلاة، ج: 1، ص: 444۔447، ط:  سعيد)

وفيه أيضاً:

"(قوله مبسوط على نجس إلخ) قال في المنية: وإذا أصابت الأرض نجاسة ففرشها بطين أو جص فصلى عليها جاز وليس هذا كالثوب، ولو فرشها بالتراب ولم يطين، إن كان التراب قليلا بحيث لو استشمه يجد رائحة النجاسة لا تجوز وإلا تجوز. اهـ. قال في شرحها: وكذا الثوب إذا فرش على النجاسة اليابسة؛ فإن كان رقيقا يشف ما تحته أو توجد منه رائحة النجاسة على تقدير أن لها رائحة لا يجوز الصلاة عليه، وإن كان غليظا بحيث لا يكون كذلك جازت. اهـ. ثم لا يخفى أن المراد إذا كانت النجاسة تحت قدمه أو موضع سجوده لأنه حينئذ يكون قائما أو ساجدا على النجاسة لعدم صلوح ذلك الثوب لكونه حائلا، فليس المانع هو نفس وجود الرائحة حتى يعارض بأنه لو كان بقربه نجاسة يشم ريحها لا تفسد صلاته فافهم."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 626، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں