بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خواتین کے لیے پینٹ شرٹ پہننے کا حکم


سوال

 کیا شریعت میں خواتین کو پینٹ پہننا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خواتین کے لیے چست لباس یا ایسا لباس  جو ستر پوش نہ ہو   پہننا  اور  شوہر کے علاوہ غیر مردوں کے سامنے آنا شرعًا جائز نہیں، احادیث میں ایسی خواتین کے بارے میں سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں، تاہم شوہر کی خواہش پر صرف شوہر کے سامنے یہ لباس پہننے کی اجازت ہے، بشرط یہ کہ  گھر میں کوئی  سمجھ دار بچہ نہ ہو  اور وہ یہ  لباس پہن کر شوہر کے علاوہ کسی اور  مرد  کے سامنے نہ آئے، نیز اس میں غیر مسلم خواتین کے فیشن کی پیروی بھی مقصود نہ ہو، بہرحال ان شرائط کی رعایت کے ساتھ بھی یہ  لباس پہننا پسندیدہ نہیں، کیوں کہ اس سے اس لباس کی قباحت و شناعت دل سے جاتی رہے گی، جو  کہ خطرناک  بات  ہے۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"قال اللّٰہ تعالیٰ:{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [الأحزاب: ۵۹]

"ومن للتبعیض، ویحتمل ذلك علی ما في الکشاف وجهین: أحدهما أن یکون المراد بالبعض واحدًا من الجلابیب وإدناء ذلك علیهن أن یلبسنه علی البدن کلّه، وثانیهما أن یکون المراد بالبعض جزءًا منه، وإدناء ذلك علیهنّ أن یتقنّعن فیسترن الرأس والوجه بجزء من الجلباب مع إرخاء الباقي علی بقیة البدن."

(سورة الأحزاب، آيت:55۔73، ج:11، ص:264، ط:دار الكتب العلمية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.

(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب."

 (كتاب اللباس، الفصل الثاني، ج:8، ص:222، ط:مکتبہ حنیفیہ)

عمدۃ القاری میں ہے:

"أَنه صَلَّی اللَّه علیه وَسَلَّم  حذر أهله وَجَمِیع الْمُؤْمِنَات من لِبَاس رَقیق الثِّیاب الواصفة لأجسامهن بقوله: کم من کاسیة في الدنیا عاریة یوم القیامة، وفهم منه أن عقوبة لابسة ذلک أن تعری یوم القیامة". 

( باب ماکان النبي صلی الله علیه وسلم یتجوز من اللباس ، ج: 22، ص: 20، ط: دار إحیاء التراث العربي)

تکملة فتح الملهم میں ہے:

"فکل لباس ینکشف معه جزء من عورة الرجل والمرأة لاتقره الشریعة الإسلامیة ..... وکذلک اللباس الرقیق أو اللا صق بالجسم الذي یحکي للناظر شکل حصة من الجسم الذي یجب ستره، فهو في حکم ماسبق في الحرمة وعدم الجواز".

( کتاب اللباس والزینة: ج:4، ص:88، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

شرح النووى علي مسلم میں ہے:

"قوله صلى الله عليه وسلم (كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته) قال العلماء الراعي هو الحافظ المؤتمن الملتزم صلاح ما قام عليه وما هو تحت نظره ففيه أن كل من كان تحت نظره شيء فهو مطالب بالعدل فيه والقيام بمصالحه في درٹينه ودنياه ومتعلقاته."

(كتاب الإمارة، باب فضيلة الأمير العادل وعقوبة الجائر...إلخ، ج:12، ص: 213، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102339

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں