بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خواتین کے لیے اسلامی ڈراموں میں کردار ادا کرنے والی عورتوں کی طرح کا لباس پہننے کا حکم


سوال

ارتغرل غازی ڈراما  ہوگیا یا اور کوئی اسلامی ممالک کے ڈرامے میں جو عورتیں کردار ادا  کرتی ہیں اور جو کپڑے پہنتی ہیں اس کپڑے  کی نقل کر کے ہمارے گھر کی مستورات ان کی طرح کا لباس پہن سکتی ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی جان دار کی تصویر کا بلا ضرورت بنانا، رکھنا اور  دیکھنا قطعاًجائز نہیں، نیز  مردوں کے لیے خواتین کی تصاویر دیکھنے میں بد نظری کا گناہ بھی ہے، اسی طرح موسیقی کا سننا بھی شرعًا حرام ہے، اور  ڈرامے  (خواہ اسلامی ڈرامے کے نام سے ہوں) چوں کہ جان دار  کی تصاویر  پر مشتمل ہونے کے ساتھ  ساتھ  (جیساکہ عوام الناس کے بیان سے معلوم ہوتاہے) عورتوں کی تصاویر اور موسیقی  پر بھی مشتمل ہوتے ہیں؛ اس لیے مروجہ اسلامی ڈرامے یا فلمیں دیکھنا کسی کے  لیے بھی جائز نہیں ہے۔ کسی عورت کا ڈرامے میں کردار ادا کرنے والی عورتوں کی طرح کا لباس بنوانے کے  لیے بھی ڈراما  دیکھنا جائز نہیں ہے۔

باقی عورتوں کے  لیے کسی بھی قسم کا لباس پہننے کے  لیے شرط یہ ہے کہ وہ لباس شریعت کی طرف سے متعین کردہ اصولوں کے مطابق ہو  ،جن کی بنیاد یہ ہے کہ:

1۔لباس اتنا چھوٹا، باریک یا چست نہ ہو کہ جسم کے جن اعضاء کا چھپانا واجب ہے وہ یا ان کی ساخت ظاہر ہوجائے۔

2۔لباس میں کفار  و فساق کی نقالی اور مشابہت نہ ہو۔

3-عورت کا لباس مردوں کے لباس کے مشابہہ نہ ہو۔

4- اجنبی (غیر محرم) کے سامنے جاذبِ نظر لباس نہ پہنا جائے۔

لہذا جس لباس میں مذکورہ شرائط پائی جاتی ہوں، وہ لباس پہننا عورت کے لیے جائز ہو گا اور جس لباس میں مذکورہ شرائط نہیں پائی جاتیں وہ لباس پہننا عورتوں کے  لیے جائز نہیں ہوگا۔ 

قال اللّٰہ تعالیٰ:{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [الأحزاب: ۵۹]

"ومن للتبعیض، ویحتمل ذلك علی ما في الکشاف وجهین: أحدهما أن یکون المراد بالبعض واحدًا من الجلابیب وإدناء ذلك علیهن أن یلبسنه علی البدن کلّه، وثانیهما أن یکون المراد بالبعض جزءًا منه، وإدناء ذلك علیهنّ أن یتقنّعن فیسترن الرأس والوجه بجزء من الجلباب مع إرخاء الباقي علی بقیة البدن." (روح المعاني ۱۲؍۱۲۸)

وقال تعالیٰ:{وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى}[الأحزاب: ۳۳]

سنن أبي داود (4/ 60):

"باب في لباس النساء

حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم: «أنه لعن المتشبهات من النساء بالرجال، والمتشبهين من الرجال بالنساء»". 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2782)

"وعنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.

(وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب. قلت: بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير، فإن الخلق الصوري لايتصور فيه التشبه، و الخلق المعنوي لايقال فيه التشبه، بل هو التخلق، هذا وقد حكى حكاية غريبة ولطيفة عجيبة، وهي أنه لما أغرق الله - سبحانه - فرعون وآله لم يغرق مسخرته الذي كان يحاكي سيدنا موسى عليه الصلاة والسلام في لبسه وكلامه ومقالاته، فيضحك فرعون وقومه من حركاته وسكناته ; فتضرع موسى إلى ربه: يا رب! هذا كان يؤذي أكثر من بقية آل فرعون، فقال الرب تعالى: ما أغرقناه ; فإنه كان لابسا مثل لباسك، والحبيب لا يعذب من كان على صورة الحبيب، فانظر من كان متشبها بأهل الحق على قصد الباطل حصل له نجاة صورية، وربما أدت إلى النجاة المعنوية، فكيف بمن يتشبه بأنبيائه وأوليائه على قصد التشرف والتعظيم، وغرض المشابهة الصورية على وجه التكريم؟ ، وقد بسط أنواع التشبه بالمعارف في ترجمة عوارف المعارف. (رواه أحمد، وأبو داود)". 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2791):

"«وعن أم سلمة - رضي الله عنها - أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها وهي تختمر فقال: " لية لا ليتين» ". رواه أبو داود.

(وعن أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها وهي تختمر) : أي تلبس خمارها (فقال: لية) : بفتح اللام والتحتية المشددة مفعول مطلق أي لوى لية واحدة (لا ليتين): أي لفة لا لفتين حذرا من الإسراف أو التشبه بالرجال، فإن النساء لا ينبغي لهن أن يلبسن مثل لباس الرجال وبالعكس لما ورد عن ابن عباس مرفوعا: " «لعن الله المتشبهات من النساء بالرجال والمتشبهين من الرجال بالنساء» " على ما رواه أحمد وأبو داود والترمذي وابن ماجه. قال القاضي: أمرها بأن تجعل الخمار على رأسها وتحت حنكها عطفة واحدة لا عطفتين، حذرا من الإسراف أو التشبه بالمتعممين (رواه أبو داود) ، وكذا أحمد في مسنده، والحاكم في مستدركه".

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144212201618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں