بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خواتین کا جہرًا تلاوتِ قرآن کرنا


سوال

 کیا لڑکی گھر سے باہر قرآنِ مجید کی تلاوت کر سکتی ہے جیسا کہ قرآن مقابلے یا اپنا چینل بنا سکتی ہے؟ اس نیت کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کا کلام سننے سے لوگوں کو سرور نصیب ہو گا یا ہو سکتا ہے کہ بھٹکے ہوئے راہ راست پہ آجائیں، جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  آ ئےتھے؟

جواب

عورت کی آواز اگرچہ راجح قول کے مطابق ستر نہیں،   لیکن عوارض کی وجہ سے بعض جائز اُمور کا ناجائز ہوجانا فقہ میں معروف و مشہور ہے،  اِس لیے اگر شرعی ضرورت نہ ہو تو عورت کی آواز کابھی غیر محرم سے پردہ ہے۔

لہذا اگر عورت کسی ایسی جگہ یا ایسے مقابلہ میں تلاوت کرے جہاں اس کی آواز کسی  غیر محرم کے کانوں میں نہ پڑے تو ایسی جگہ تلاوت کرنے کی اجازت ہوگی، لیکن اگر عورت کی تلاوت کی آواز کا غیر محرموں کے کان میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو اس کی اجازت نہ ہو گی۔

نیز بوقتِ ضرورت جب عورت غیر محرم سے بات کرے تو بھی اسے حکم ہے کہ آواز نرمی پیدا کیے بغیر صاف اور سیدھی بات کرے، جس سے مخاطب کے دل میں کسی قسم کی طمع یا میلان پیدا نہ ہو، ایسا انداز اختیار کرنا جس سے عورت کی آواز سن کر اجنبی کی توجہ اس طرف ہو، درست نہیں ہے۔

بلکہ حالتِ احرام میں بھی عورت کو تلبیہ جہراً پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی اور صرف اتنی آواز سے پڑھنے کی اجازت دی گئی کہ اس کے اپنے کانوں تک آواز پہنچے۔

باقی اپنا چینل بنانے میں بھی یہ مفسدہ لازم آتا ہے کہ چینل پر مرد اور عورت سب آتے ہیں اور غیر محرم مرد بھی عورت کی آواز سنیں گے، اس لیے شرعاً عورت کے لیے کلام اللہ سنانے کے لیے چینل بنانے کی اجازت نہیں۔

جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے سبب کی بات ہے، تو ان کی ہدایت کا سبب درحقیقت رسول اللہ  ﷺ  کی دعا ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قرآنِ پاک پڑھنا ہے، یعنی قرآنِ پاک کا ورق (نسخہ) ہاتھ میں لے کر بغور پڑھنے سے ان کے دل میں اسلام کی ہدایت اتر گئی، نہ کہ کسی عورت (اپنی بہن) کی آواز اور لَے سن کر ان کا دل پسیجا، لہٰذا عورت کی آواز مردوں کو سناکر دین کی طرف مائل کرنے کا خیال اچھا نہیں، بلکہ شیطان کی طرف سے ہے۔

صاحبِ در مختار لکھتے ہیں:

' فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولانجيز لهن رفع أصواتهن ولاتمطيطها ولاتليينها وتقطيعها؛ لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن، وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة '. (3/72)

’’عورت کی آواز (کے عورت ہونے) میں اختلاف ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ وہ عورت نہیں‘‘۔

(امدادالفتاویٰ ص۱۹۷ج۴)

’’لیکن عوارض کی وجہ سے بعض جائز امور کا ناجائز ہوجانا فقہ میں معروف ومشہور ہے (اس لیے  فتنہ کی وجہ سے عورت کی آواز کا بھی پر دہ ہے)‘‘۔

(امدادالفتاویٰ ص۱۹۷ج۴)

التفسير المظهرى ـ (1 / 1311):

"(مسألة) قال فى النوازل: نغمة المرأة عورة، ولهذا قال عليه السلام: التسبيح للرجال والتصفيق للنساء، قال ابن الهمام: وعلى هذا لو قيل: إن المرأة إذا جهرت بالقراءة فى الصلاة فسدت كان متجهًا".

التفسير المظهرى ـ (1 / 2713):

"قال البغوي كانت المرأة إذا مشت ضربت برجلها لتسمع صوت خلخالها فنهيت عن ذلك؛ لأنه يورث في الرجال ميلاً إليها. قال البيضاوي: وهو أبلغ من النهى عن إبداء الزينة وأدل على المنع من رفع الصوت لها، ولذا صرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليها أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إليّ؛ لأن نغمتها عورة، ولذا قال عليه السّلام: التسبيح للرجال والتصفيق للنساء. متفق عليه من حديث سهل بن سعد. فلايحسن أن يسمعها الرجل، قال ابن همام: وعلى هذا لو قيل: إذا جهرت المرأة بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجهًا".

روح المعانى ـ  (9 / 340):

"والمذكور في معتبرات كتب الشافعية وإليه أميل أن صوتهن ليس بعورة فلايحرم سماعه إلا إن خشي منه فتنة، وكذا إن التذّ به كما بحثه الزركشي. وأما عند الحنفية فقال الإمام ابن الهمام: صرح في النوازل أن نغمة المرأة عورة، ولذاقال النبي صلّى اللّه عليه وسلّم: «والتكبير للرجال والتصفيق للنساء»؛ فلايحسن أن يسمعها الرجل اهـ".

مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح - (8 / 1000):

"فإن المرأة لاتجهر بها بل تقتصر على إسماع نفسها. وقال ابن رشد: أجمع أهل العلم على أن تلبية المرأة فيما حكاه أبو عمر هو أن تسمع نفسها بالقول. وفي الدر المختار: ولاتلبي جهرًا بل تسمع نفسها دفعًا للفتنة".

رد المحتار - (3 / 255):

"(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر: وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: "التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء"، فلايحسن أن يسمعها الرجل. ا هـ. وفي الكافي: ولاتلبي جهرًا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر".

فتح القدير لكمال بن الهمام - (1 / 496):

"[ فرع ] صرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من الأعمى، قال: لأن نغمتها عورة، ولهذا قال عليه الصلاة والسلام: {التسبيح للرجال والتصفيق للنساء}؛ فلايحسن أن يسمعها الرجل، انتهى كلامه. وعلى هذا لو قيل: إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجهًا، ولذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام لسهوه إلى التصفيق".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (1 / 285):

"وصرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى، ولهذا قال: التسبيح للرجال والتصفيق للنساء؛ فلايجوز أن يسمعها الرجل.  ومشى عليه المصنف في الكافي فقال: ولاتلبي جهرًا؛ لأنّ صوتها عورة".

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (5 / 144):

"المرأة إذا أرادت تعلّم القرآن من الأعمى جاز، ولكنّ التعلم من المرأة أولى؛ لأنّ صوتها عورة".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144109201812

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں