خواتین کا فاتحہ کے لیے قبرستان جانا کیسا ہے؟
عورتوں میں فطرتاً صبر و تحمل کم ہونے کی وجہ سے جزع فزع کرنا اور آواز سے رونا پایا جاتا ہے، نیز قبرستان جانے میں دینی فتنوں (جیسے بدعات) و دنیوی فتنوں (جیسے جوان یا بے پردہ عورت کا جانا) کا بھی اندیشہ ہوتا ہے ۔لہذا ان مفاسد کے پیشِ نظرعورتوں کے لیے قبرستان جانا جائز نہیں ہے، اس لیے انہیں گھر ہی سے ایصالِ ثواب کرنا چاہیے،تاہم، بوڑھی عورت ،عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو مذکورہ بالا مفاسد سے بچتے ہوئے جانے کی گنجائش ہے۔
سنن ترمذی میں ہے :
"عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیها المساجد والسرج.‘‘
(سنن ترمذی، ۱ ؍ ۴۲۲، دار الغرب الإسلامي - بيروت)
ترجمہ:"حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔"
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"(«كنت نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروا القبور فإنها تزهد في الدنيا وتذكر الآخرة») رواه ابن ماجه عن ابن مسعود، وروى الحاكم بسند صحيح عن أنس: ( «كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها فإنها ترق القلب، وتدمع العين، وتذكر الآخرة، ولا تقولوا هجرا» ، وفي لفظ له: «نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها فإنها تذكركم الموت» ، وروى الطبراني عن أم سلمة بسند حسن ولفظه: «نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها فإن لكم فيها عبرة» . فهذه الأحاديث بتعليلاتها تدل على أن النساء كالرجال في حكم الزيارة، إذا زرن بالشروط المعتبرة في حقهن، ويؤيد الخبر السابق أنه - صلى الله عليه وسلم - مر بالمرأة فأمرها بالصبر ولم ينهها عن الزيارة، وأما خبر: «لعن الله زوارات القبور» فمحمول على زيارتهن لمحرم كالنوح وغيره مما اعتدنه، وفي قوله - صلى الله عليه وسلم - «فإنها تدمع العين» في الحديث السابق دليل۔"
(4/1255، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100854
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن