بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خواتین کا فاتحہ کے لیے قبرستان جانا


سوال

خواتین قبرستان میں فاتحہ کے لیے جاسکتی ہیں یا نہیں؟

جواب

عورتوں میں فطرتاً صبر و تحمل کم ہونے کی وجہ سے جزع فزع کرنا اور آواز سے رونا پایا جاتا ہے، نیز قبرستان جانے میں دینی فتنوں (جیسے بدعات) و دنیوی فتنوں (جیسے جوان یا بے پردہ عورت کا جانا) کا بھی اندیشہ ہوتا ہے لہذا ان مفاسد کے پیشِ نظرعورتوں کے لیے قبرستان جانا جائز نہیں ہے، اس لیے انہیں گھر ہی سے ایصالِ ثواب کرنا چاہیے،تاہم،  بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو مذکورہ بالا مفاسد سے بچتے ہوئے جانے کی گنجائش ہے۔

حدیث میں ہے :

"عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیها المساجد والسرج.‘‘

(سنن ترمذی، ۱ ؍ ۴۲۲، دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:"حضرت عبد اللہ بن عباسr فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔"

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"(«كنت نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروا القبور فإنها تزهد في الدنيا وتذكر الآخرة») رواه ابن ماجه عن ابن مسعود، وروى الحاكم بسند صحيح عن أنس: ( «كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها فإنها ترق القلب، وتدمع العين، وتذكر الآخرة، ولا تقولوا هجرا» ، وفي لفظ له: «نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها فإنها تذكركم الموت» ، وروى الطبراني عن أم سلمة بسند حسن ولفظه: «نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها فإن لكم فيها عبرة» . فهذه الأحاديث بتعليلاتها تدل على أن النساء كالرجال في حكم الزيارة، إذا زرن بالشروط المعتبرة في حقهن، ويؤيد الخبر السابق أنه - صلى الله عليه وسلم - مر بالمرأة فأمرها بالصبر ولم ينهها عن الزيارة، وأما خبر: «لعن الله زوارات القبور» فمحمول على زيارتهن لمحرم كالنوح وغيره مما اعتدنه، وفي قوله - صلى الله عليه وسلم - «فإنها تدمع العين» في الحديث السابق دليل۔"

(4/ 1255، دار الفكر)

و فیہ: 

"(وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لعن زورات القبور) ولعل المراد كثيرات الزيارة (رواه أحمد والترمذي وابن ماجه، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح وقال) أي الترمذي (قد رأى) أي ذهب (بعض أهل العلم أن هذا) أي اللعن (كان قبل أن يرخص النبي - صلى الله عليه وسلم - في زيارة القبور، فلما رخص دخل في رخصته الرجال والنساء) وهذا هو الظاهر (وقال بعضهم: إنما كره) أي النبي - صلى الله عليه وسلم - وروي بصيغة المجهول (زيارة القبور للنساء لقلة صبرهن وكثرة جزعهن) وفي نسخة: وكثرة عجزهن، قال الطيبي: صوابه وكثرة جزعهن (تم كلامه) أي قال المصنف، تم كلام الترمذي."

 (4/ 1260، دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد".

(2/ 210، دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں