بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر محرم کے عمرہ کا سفر کرنے کا حکم / خواتین کا آپس میں مل کر عمرے پر جانا کیسا ہے؟


سوال

میں اور میری والدہ عمرہ کے لیے جانا چاہتے ہیں، مگر ہمارے پاس محرم کے پیسے نہیں ہیں،   ہم قریبی رشتہ دار خواتین کے ساتھ جائیں گے اور سعودی عرب میں میری امی کا محرم بھانجا موجود ہے، جو ائیرپورٹ سے لینے آ جائے گا، کیا ہم ایسے جا سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی عورت کے لیےسفرِ شرعی(یعنی وہ سفر جو کہ اڑتالیس میل تقریباً سوا ستتّر کلو میٹر پر مشتمل ہو) محرم کے بغیر کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ اور اس کی والدہ کا اپنے اپنے محارم کے بغیر سفرِ عمرہ پر جاناجائز نہیں ہے؛ اور صرف خواتین کے آپس میں مل کر جانے سے چوں کہ فتنہ کا مزید اندیشہ ہے، اس لیے دیگر رشتہ دار خواتین کے ساتھ جانا بھی بدستور ناجائز ہی ہے۔

بھانجا چوں کہ جدہ ائیر پورٹ پر آکر والدہ سے ملے گا، اور پاکستان سے سعودیہ تک کا سفر بغیر محرم کے گزرے گا؛ اس لیے یہاں سے سعودیہ تک کا سفر محرم کے بغیر ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا، البتہ آئندہ کا سفر  و عمرہ محرم کے ساتھ درست ہوگا۔

البحر الرائق   میں ہے:

"(قوله: ومحرم أو زوج لامرأة في سفر) أي وبشرط محرم إلى آخره لما في الصحيحين لا تسافر امرأة ثلاثا إلا ومعها محرم . وزاد مسلم في رواية أو زوج . وروى البزار لا تحج امرأة إلا ومعها محرم فقال رجل يا رسول الله إني كتبت في غزوة وامرأتي حاجة قال ارجع فحج معها فأفاد هذا كله أن النسوة الثقات لا تكفي."

(ص:٣٣٨،ج:٢،کتاب الحج،ط: دار الکتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"الذي يخص النساء فشرطان: أحدهما أن يكون معها زوجها أو محرم لها فإن لم يوجد أحدهما لا يجب عليها الحج. وهذا عندنا، وعند الشافعي هذا ليس بشرط، ويلزمها الحج، والخروج من غير زوج، ولا محرم إذا كان معها نساء في الرفقة ثقات ... (ولنا) ما روي عن ابن عباس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ألا لا تحجن امرأة إلا ومعها محرم ، وعن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: لا تسافر امرأة ثلاثة أيام إلا ومعها محرم أو زوج ولأنها إذا لم يكن معها زوج، ولا محرم لا يؤمن عليها إذ النساء لحم على وضم إلا ما ذب عنه، ولهذا لا يجوز لها الخروج وحدها. والخوف عند اجتماعهن أكثر، ولهذا حرمت الخلوة بالأجنبية، وإن كان معها امرأة أخرى."

(ص:١٢٣،ج:٢،کتاب الحج، فصل فی شرائط فرضية الحج، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

’’(سوال ۶۹ ) ایک عورت کے دولڑ کے دوسرے ملک میں رہتے ہیں، جن میں سے ایک لڑ کا امسال حج کے لئے جانے والا ہے، وہ سیدھا مکہ مکرمہ چلا جاوے گا ، وہ چاہتا ہے کہ اپنے مرحوم بھائی کی طرف سے والدہ کو حج بدل کرادے، اس کی صورت یہ ہوگی کہ والدہ بذریعہ ہوائی جہاز بمبئی سے جدہ تک آجاوے، وہاں ایئر پورٹ پر لینے کے لئے وہ لڑکا آئے گا، مطلب یہ ہے کہ مذکورہ عورت حج بدل کے لئے جاوے تو اسے بمبئی سے جدہ تک محرم کے بغیر سفر کرنا ہو گا، بقیہ سفر میں ہندوستان آنے تک لڑ کا ساتھ رہے گا، عورت کی عمر ۷۵ سے ۸۰ سال کے در میدان ہے. پس مذکورہ صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

(الجواب ) صورت مسئولہ میں عورت کے گھر سے جدہ تک بھی محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے، بغیر محرم کے حج کے لئے جانا منع ہے، حدیث شریف میں ہے کہ کبھی بھی کوئی عورت محرم کے بغیر سفر حج نہ کرے۔۔۔ مذکورہ عورت جانا ہی چاہتی ہے تو ہندوستان سے اپنے ساتھ کسی محرم کو کرلے یا پھر خود لڑکا آ کر والدہ کو ساتھ لے جاوے، اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔‘‘

(ص:٦٥،ج:٨،کتاب الحج، ط: دار الاشاعت، کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101687

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں