بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خواتین کے لیے بلڈنگ کی پارکنگ میں تراویح کی جماعت میں شرکت کا انتظام کرنا


سوال

فلیٹ میں ایک مصلیٰ ہے، جس میں پانچ وقت نماز ہوتی ہے، اور رمضان المبارک میں تراویح کا اہتمام بھی ہوتا ہے، یہ مصلیٰ پارکنگ نمبر2 میں واقع ہے، اب انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ پارکنگ نمبر2 میں جو تراویح کی نماز ہوتی ہے، اس کے اوپر کی منزل جو کہ پارکنگ نمبر3 ہے، اس میں خواتین کے لیے تراویح کی نماز کا اہتمام کیا جائے، اس طورپر کہ پارکنگ نمبر2 سے اسپیکر کا کنکشن لے کر پارکنگ نمبر3 میں کردیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ کیا خواتین کے لیے اس طرح سے انتظام کرنا درست ہے؟ یا ان کے لیے الگ انتظام کیا جائے؟ جو صورت بھی از روئے شرع جائز ہو، اس کی وضاحت فرمادیں۔

جواب

عورتوں  کے لیے جماعت کے ساتھ  نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جانا یا گھر سے باہر  کسی بھی جگہ جاکر باجماعت نماز میں شرکت کرنا مکروہ ہے، خواہ فرض نماز ہو یا  عید کی نماز ہو یا تراویح  کی جماعت ہو،  حضور ﷺ کے زمانہ میں  عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں ،وہ بہترین زمانہ تھا، آپﷺ بنفسِ نفیس موجود تھے،  اور وحی کا نزول ہوتا تھا، اسلامی احکام نازل ہورہے تھے  اور عورتوں کے لیے بھی علمِ دین اور شریعت کے احکامات سیکھنا ضروری تھا، مزید یہ کہ آپ ﷺ کی  مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب بھی  عام مساجد سے کئی گنا زیادہ  تھا ،لیکن  اس وقت  بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات  پہن کر نہ آئیں اورخوشبو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے فوراً بعد مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں، اور ان پابندیوں کے ساتھ اجازت کے بعد بھی  آپ ﷺنے ترغیب یہی دی   کہ عورتوں کا گھر میں اور پھر گھر میں بھی اندر والے حصے میں  نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز  پڑھنےسے افضل ہے۔آپ ﷺ کے  پردہ فرمانے کے بعد  جب حالات بدل گئے    اور صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے  اپنے زمانہ میں یہ دیکھا کہ عورتیں اب ان پابندیوں کا خیال نہیں کرتیں  تو   حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں   صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم  اجمعین  کی موجودگی میں عورتوں کو مسجد آنے سے منع کر دیا گیا، اور اس پر گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اتفاق ہوگیا،  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں کی جو حالت آج ہو گئی ہے وہ حالت اگر حضور  ﷺ کے زمانہ میں ہوئی ہوتی تو آپ  ﷺ عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرما دیتے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے   کہ  حضور ﷺ کے وصال کو زیادہ عرصہ  بھی نہیں گزرا  تھا۔  ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج خوب سمجھتی تھیں؛ اسی لیے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتوں کی ایسی حالت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو آنے سے منع فرمادیتے۔ اس لیے موجودہ  پر فتن دور  میں خواتین کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز اداکریں، یہی ان کے لیے زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے۔

نیز امام کی اقتدا  درست ہونے کے  لیے امام و مقتدی کا  متحد المکان ہونا بھی ضروری ہوتا ہے، اور اتحاد بالمکان کے بارے میں مسجد اور غیرِ مسجد کے لحاظ سے تفصیلات علیحدہ ہیں، مسجد  کا تو یہ حکم ہے کہ مسجد کا اندرونی حصہ،صحنِ مسجد ، مضافاتِ مسجد،  اسی طرح سے مسجد کی تمام منزلیں، یہ سب متحد المکان شمار ہوتے ہیں، یعنی اگر کسی شخص نے مسجد کے صحن یا مسجد کی کسی منزل میں کھڑے ہوکر امام کی اقتدا کی تو اس کی اقتدا  درست ہوجائے گی، خواہ صفوں کا اتصال بالفعل ہو یا نہ ہو، اگر چہ بلاعذر صفوں کے درمیان خلاء   رکھنا مکروہ ہوگا، مگر جماعت سے  نماز  ادا ہوجائے گی، لیکن  مسجد کے علاوہ کسی گھر یا بلڈنگ میں نماز باجماعت ادا کرتے ہوئے صفوں کے درمیان بالفعل اتصال کا ہونا بھی ضروری ہے، جس کے نتیجہ میں بلڈنگ کی کسی منزل میں ادا کی جانے والی نماز میں شمولیت صرف اُس صورت میں درست ہوگی  جب کہ صفوں میں حقیقی اتصال ہو، یعنی اُسی منزل پر تمام مقتدی  امام کے ساتھ صفیں بنائیں جس منزل پر امام نماز پڑھا رہا ہو، اور دو صفوں کے درمیان اتنی جگہ نہ چھوڑی جائے کہ اُس جگہ میں دو صفیں بن سکتی ہوں، پس اگر اتصال نہ ہو تو جماعت میں شرکت درست نہ ہوگی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں خواتین کے لیے گھروں سے باہر تراویح کے لیے جماعت  کا انتظام کرنادرست نہیں ہے، اور اگر مذکورہ طریقہ کار کے مطابق  خواتین جماعت میں شریک ہوبھی گئیں، تو اُن کی اقتداء درست نہیں ہوگی، لہٰذا عورتوں کو چاہیے کہ وہ گھروں میں جماعت کے بغیر انفرادی طور پر تراویح پڑھیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) يكره تحريما (‌جماعة ‌النساء) ولو التراويح.

قال عليه في الرد: (قوله ولو في التراويح) أفاد أن الكراهة في كل ما تشرع فيه جماعة الرجال فرضا أو نفلا."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١/ ٥٦٥. ط: سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

"تراویح مردوں اور عورتوں سب کے لیے سنت مؤکدہ ہے، مگر عورتوں کے لیے جماعت  سنتِ  مؤکدہ نہیں ہے۔"

(کتاب الصلوٰۃ، باب التراویح، ۳/ ۴۰۶، ط: دارالاشاعت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويمنع من الاقتداء) ... (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ... (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر.

قال عليه في الرد: (قوله أو خلاء) بالمد: المكان الذي لا شيء به قاموس (قوله أو في مسجد كبير جدا إلخ) قال في الإمداد: والفاصل في مصلى العيد لا يمنع وإن كثر. واختلف في المتخذ لصلاة الجنازة. وفي النوازل: جعله كالمسجد، والمسجد وإن كبر لا يمنع الفاصل إلا في الجامع القديم بخوارزم، فإن ربعه كان على أربعة آلاف أسطوانة وجامع القدس الشريف أعني ما يشتمل على المساجد الثلاثة الأقصى والصخرة والبيضاء، كذا في البزازية اهـ ومثله في شرح المنية. وأما قوله في الدرر: لا يمنع من الاقتداء الفضاء الواسع في المسجد، وقيل يمنع اهـ فإنه وإن أفاد أن المعتمد عدم المنع لكنه محمول على غير المسجد الكبير جدا كجامع خوارزم والقدس بدليل ما ذكرناه، وكون الراجح عدم المنع مطلقا يتوقف على نقل صريح فافهم. [تتمة]

في القهستاني: البيت كالصحراء. والأصح أنه كالمسجد ولهذا يجوز الاقتداء فيه بلا اتصال الصفوف كما في المنية اهـ ولم يذكر حكم الدار فليراجع، لكن ظاهر التقييد بالصحراء والمسجد الكبير جدا أن الدار كالبيت تأمل. ثم رأيت في حاشية المدني عن جواهر الفتاوى أن قاضي خان سئل عن ذلك، فقال: اختلفوا فيه، فقدره بعضهم بستين ذراعا، وبعضهم قال: إن كانت أربعين ذراعا فهي كبيرة وإلا فصغيرة، هذا هو المختار. اهـ. وحاصله أن الدار الكبيرة كالصحراء والصغيرة كالمسجد، وأن المختار في تقدير الكبيرة أربعون ذراعا. وذكر في البحر عن المجتبى أن فناء المسجد له حكم المسجد، ثم قال: وبه علم أن الاقتداء من صحن الخانقاه الشيخونية بالإمام في المحراب صحيح وإن لم تتصل الصفوف لأن الصحن فناء المسجد، وكذا اقتداء من بالخلاوي السفلية صحيح لأن أبوابها في فناء المسجد إلخ، ويأتي تمام عبارته. وفي الخزائن: فناء المسجد هو ما اتصل به وليس بينه وبينه طريق. اهـ. قلت: يظهر من هذا أن مدرسة الكلاسة والكاملية من فناء المسجد الأموي في دمشق لأن بابهما في حائطه وكذا المشاهد الثلاثة التي فيه بالأولى، وكذا ساحة باب البريد والحوانيت التي فيها."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١/ ٥٨٤، ط: سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف، ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك، وينبغي أن يكملوا ما يلي الإمام من الصفوف، ثم ما يلي ما يليه، وهلمّ جرًّا، وإذا استوى جانبا الإمام فإنه يقوم الجائي عن يمينه، وإن ترجح اليمين فإنه يقوم عن يساره، وإن وجد في الصف فرجه سدّها، وإلا فينتظر حتى يجيء آخر كما قدمناه، وفي فتح القدير: وروى أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنه قال: أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيديكم بأيدي إخوانكم لاتذروا فرجات للشيطان، من وصل صفًّا وصله الله، ومن قطع صفًّا قطعه الله. وروى البزار بإسناد حسن عنه من سدّ فرجةً في الصفّ غفر له. وفي أبي داود عنه: قال: خياركم ألينكم مناكب في الصلاة."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١/ ٣٧٥، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں