بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خواجہ سرا کے ساتھ شادی کرنا کیسا ہے؟


سوال

 کیا خواجہ سرا کے ساتھ شادی ہوسکتی ہے؟ اور کیا خواجہ سرا آپس میں شادی کر سکتے ہیں؟

 

جواب

واضح رہے کہ خنثی غیر مشکل یعنی وہ خنثی کہ جس میں  مرد و عورت دونوں علامتیں پائی جائیں لیکن مردانہ علامات غالب ہوں یعنی وہ لڑکے کی طرح پیشاب کرے یا اس کی داڑھی نکل آئے یا عورت سے ہمبستری کے قابل ہوجائے یا مردوں کی طرح  احتلام ہونے لگےتو شرعاً مرد شمار ہونے کی وجہ سے اس کا کسی لڑکی سے نکاح جائز ہوگا  اور اگر اس میں زنا نہ صلاحیتیں اور علامات غالب ہوں یعنی وہ لڑکی کی طرح پیشاب کرےیااس کے پستان آئیں  یا حیض آنے لگے تو اس کا کسی مرد سے نکاح شرعاً  جائز اور درست ہوگا،اسی طرح  مذکورہ شرائط کے تحت ان کا آپس میں بھی  (خلافِ جنس کے ساتھ) نکاح درست ہوگا،اور اگر  پیشاب دونوں عضو سے نکلتا ہو تو جس عضو سے پہلے پیشاب نکلتا ہو اس ہی کا اعتبار کرکے  جنس کی تعیین ہوگی، اور  اگر دونوں عضو سے پیشاب ایک ہی ساتھ نکلتا ہو تو اس صورت میں  جس عضو سے زیادہ پیشاب نکلتا ہو، اسی کا اعتبار کرکے جنس کی تعیین کی جائے گی، البتہ اگر دونوں عضو سے برابر پیشاب آتا ہو تو ایسی صورت میں وہ نہ مذکر قرار پائے گا اور نہ ہی مؤنث، اسے   خنثی مشکل  قرار دیا جائے گا،اور   خنثی مشکل ( یعنی جس شخص میں مرد و عورت کی علامت بالکل مساوی برابر ہوں ) سے کسی لڑکے یا لڑکی کا نکاح شرعاً جائز نہیں،اور ان کا آپس میں بھی نکاح جائز نہیں  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هو  عند الفقهاء (عقد يفيد ملك المتعة) أي حل استمتاع الرجل من امرأة لم يمنع من نكاحها مانع شرعي فخرج الذكر والخنثى المشكل.....۔
(قوله: فخرج الذكر والخنثى المشكل) أي أن إيراد العقد عليهما لا يفيد ملك استمتاع الرجل بهما لعدم محليتهما له، وكذا على الخنثى لامرأة أو لمثله، ففي البحر عن الزيلعي في كتاب الخنثى: لو زوجه أبوه أو مولاه امرأة أو رجلا لا يحكم بصحته حتى يتبين حاله أنه رجل أو امرأة فإذا ظهر أنه خلاف ما زوج به تبين أن العقد كان صحيحا، وإلا فباطل؛ لعدم مصادفة المحل وكذا إذا زوج خنثى من خنثى آخر لا يحكم بصحة النكاح حتى يظهر أن أحدهما ذكر والآخر أنثى."

(كتاب النكاح، ج: 3، ص: 3، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(كتاب الخنثى) وفيه فصلان الفصل الأول - في تفسيره ووقوع الإشكال في حاله يجب أن يعلم بأن الخنثى من يكون له مخرجان قال البقالي - رحمه الله تعالى - أو لا يكون له واحد منهما ويخرج البول من ثقبة ويعتبر المبال في حقه، كذا في الذخيرة فإن كان يبول من الذكر فهو غلام، وإن كان يبول من الفرج فهو أنثى، وإن بال منهما فالحكم للأسبق، كذا في الهداية وإن استويا في السبق فهو خنثى مشكل عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى......فإن بلغ وجامع بذكره فهو رجل، وكذا إذا لم يجامع بذكره ولكن خرجت لحيته فهو رجل، كذا في الذخيرة وكذا إذا احتلم كما يحتلم الرجل أو كان له ثدي مستو، ولو ظهر له ثدي كثدي المرأة أو نزل له لبن في ثدييه أو حاض أو حبل أو أمكن الوصول إليه من الفرج فهو امرأة، وإن لم تظهر إحدى هذه العلامات فهو خنثى مشكل."

(كتاب الخنثى،الفصل الثاني في أحكام الخنثى،ج: 6، ص: 438، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405101057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں