بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خواب میں گاڑھے قطرے نکلنے سے غسل لازم ہوتا ہے یا نہیں؟


سوال

سردیوں کا موسم ہے، رات کو گہری نیند آ جاتی ہے، تو نفس کو ہاتھ لگ جاتا ہے، ایسے میں چند ہلکے گاڑھے پانی کے قطرے نکل آ تے ہیں، کیا اس صورتِ حال میں غسل فرض ہو جاتا ہے یا پھر بیوی سے ہم بستری پر ہی غسل فرض ہوتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ غسل فرض ہونے کے لیے بیوی سے ہمبستری کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر بیوی سے ہمبستری کے بغیر بھی خواب میں احتلام ہوجانے کی صورت میں منی نکل جائے، تو غسل کرنا فرض ہوگا، تاہم مرد کے ذکر سے نکلنے والا مادہ  یا تو "منی" ہوگا، یا "مذی" یا "ودی"۔

لہذا سوکر اٹھنے کے بعد اپنی ران یا کپڑوں یا بستر پر تری دیکھنے کی صورت میں وہ تری ان تینوں قسموں  میں سے کوئی ایک قسم ہوگی،  جس  کی کل چودہ  صورتیں بنتی ہیں، جن میں سے سات صورتوں میں بالاتفاق غسل واجب ہوتا ہے، جوکہ درج ذیل ہیں:

(۱) احتلام یاد ہوتے ہوئے منی کایقین ہونا (۲) احتلام یاد نہ ہوتے ہوئے منی کا یقین ہونا (۳) احتلام یاد ہوتے ہوئے مذی کا یقین ہونا (۴) احتلام یاد ہوتے ہوئے منی اور مذی میں شک ہونا (۵) احتلام یاد ہوتے ہوئے منی اورودی میں شک ہونا (۶) احتلام یاد ہوتے ہوئے مذی ودی میں شک ہونا (۷) احتلام یاد ہوتے ہوئے ان تینوں میں شک ہونا۔

اور  درج ذیل  چار صورتوں میں بالاتفاق غسل واجب نہیں ہوتا:

(۱) احتلام یاد ہوتے ہوئے ودی کایقین ہونا (۲) احتلام یاد نہ ہوتے ہوئے ودی کایقین ہونا (۳) احتلام یاد نہ ہوتے ہوئے مذی کا یقین ہونا (۴) احتلا م یاد نہ ہوتے ہوئے مذی اور ودی میں شک ہونا۔

اور مذکورہ  تین صورتیں اختلافی ہیں:

احتلام یاد نہ ہوتے ہوئے (۱) منی اور مذی میں شک ہو (۲) یا منی اور ودی میں شک ہو (۳) یا ان تینوں میں شک ہونا، ان تینوں صورتوں میں اگر نیند سے پہلے ذکر ایستادہ (کھڑاہوا) نہ ہو تو امام ابوحنیفہ وامام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک احتیاطاً غسل واجب ہوگا، اور اسی پر فتویٰ ہے اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک غسل واجب  نہیں ہوگا کیوں کہ موجبِ غسل میں شک ہے، اور اگرنیند سے پہلے ذکر ایستادہ ہوتو بالاتفاق غسل واجب نہیں ہوگا ؛ کیوں کہ ذکر کا ایستادہ ہونا مذی کے نکلنےکا سبب ہے، لہذا اسی پر محمول ہوگا،لیکن اگر یہ یقین ہوجائے کہ یہ منی ہے تو غسل واجب ہوگا، اور اگر سونے سے پہلے  ذکر سست تھا تو طرفین رحمہما اللہ کے نزدیک احتیاطاً غسل واجب ہوگا ؛کیوں کہ احتمال ہے کہ یہ رطوبت شہوت کے ساتھ اپنی جگہ سے جدا ہوئی ہو، پھر وہ شخص بھول گیا ہو، اور وہ منی ہَواسے پتلی ہوگئی ہو۔

باقی منی ، مذی اور ودی میں سے کسی ایک کی تعین اور یقین  ان کی پہچان پر موقوف ہے، چناں چہ:

"منی"  گاڑھی اور سفید رنگ کی ہوتی ہے، اور  لذت سے شہوت کے ساتھ کود کر نکلتی ہے اس کے بعد عضو کا انتشار ختم ہوجاتا ہے، تر ہونے کی صورت میں اس میں خرما کے شگوفہ جیسی بو اور چپکاہٹ ہوتی ہے، اور خشک ہوجانے کے بعد انڈے کی بو ہوتی ہے۔

"مذی"  پتلی  سفیدی  مائل  (پانی کی رنگت کی طرح)  ہوتی ہے اور  اس کے نکلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا، اس کے نکلنے پر شہوت قائم رہتی ہے اور جوش کم نہیں ہوتا، بلکہ شہوت میں  مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔

"ودی" سفید گدلے رنگ کی گاڑھی ہوتی ہے جو پیشاب کے بعد اور کبھی اس سے پہلے اور کبھی جماع یا غسل کے بعد بلا شہوت نکلتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفرض) الغسل (عند) خروج (مني) من العضو... (منفصل عن مقره) هو صلب الرجل وترائب المرأة، ومنيه أبيض ومنيها أصفر... (بشهوة) أي لذة ولو حكما كمحتلم... (وإن لم يخرج) من رأس الذكر (بها) وشرطه أبو يوسف، وبقوله يفتى في ضيف خاف ريبة أو استحى كما في المستصفى. وفي القهستاني والتتارخانية معزيا للنوازل: وبقول أبي يوسف نأخذ؛ لأنه أيسر على المسلمين قلت ولا سيما في الشتاء والسفر.

(قوله: من العضو) هو ذكر الرجل وفرج المرأة الداخل احترازا عن خروجه من مقره ولم يخرج من العضو بأن بقي في قصبة الذكر أو الفرج الداخل. (قوله: ومنيه أبيض إلخ) وأيضا منيه خاثر ومنيها رقيق. (قوله: كمحتلم) فإنه لا لذة له يقينا لفقد إدراكه ط فتأمل. وقال الرحمتي: أي إذا رأى البلل ولم يدرك اللذة؛ لأنه يمكن أنه أدركها ثم ذهل عنها فجعلت اللذة حاصلة حكما."

(‌‌كتاب الطهارة، ج: 1، ص: 159۔161، ط: سعيد)

ہدایہ میں ہے:

"والمعاني الموجبة للغسل إنزال المني على وجه الدفق والشهوة من الرجل والمرأة حالة النوم واليقظة... ثم المعتبر عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى انفصاله عن مكانه على وجه الشهوة."

(كتاب الطهارة، باب الوضوء، فصل في الغسل، ج: 1، ص: 51، ط: بشري)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) عند (رؤية مستيقظ) خرج رؤية السكران والمغمى عليه المذي منيا أو مذيا (وإن لم يتذكر الاحتلام) إلا إذا علم أنه مذي أو شك أنه مذي أو ودي أو كان ذكره منتشرا قبيل النوم فلا غسل عليه اتفاقا كالودي، لكن في الجواهر إلا إذا نام مضطجعا أو تيقن أنه مني أو تذكر حلما فعليه الغسل والناس عنه غافلون.

(قوله: منيا أو مذيا) اعلم أن هذه المسألة على أربعة عشر وجها؛ لأنه إما أن يعلم أنه مني أو مذي أو ودي أو شك في الأولين أو في الطرفين أو في الأخيرين أو في الثلاثة، وعلى كل إما أن يتذكر احتلاما أو لا فيجب الغسل اتفاقا في سبع صور منها وهي ما إذا علم أنه مذي، أو شك في الأولين أو في الطرفين أو في الأخيرين أو في الثلاثة مع تذكر الاحتلام فيها، أو علم أنه مني مطلقا، ولا يجب اتفاقا فيما إذا علم أنه ودي مطلقا، وفيما إذا علم أنه مذي أو شك في الأخيرين مع عدم تذكر الاحتلام؛ ويجب عندهما فيما إذا شك في الأولين أو في الطرفين أو في الثلاثة احتياطا، ولا يجب عند أبي يوسف للشك في وجود الموجب، واعلم أن صاحب البحر ذكر اثنتي عشرة صورة وزدت الشك في الثلاثة تذكر أولا أخذا من عبارته. اهـ. ح."

(‌‌كتاب الطهارة، ج: 1، ص: 164،163، ط:سعيد)

مراقی الفلاح میں ہے:

"المني: وهو ‌ماء ‌أبيض ‌ثخين ينكسر الذكر بخروجه يشبه رائحة الطلع ومني المرأة رقيق أصفر."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب في الغسل، ‌‌فصل ما يجب فيه الاغتسال، ص: 42، ط: المكتبة العصرية)

وفيه أيضاً:

"مذي بفتح الميم وسكون الدال المعجمة وكسرها وهو ماء أبيض رقيق يخرج عند شهوة لا بشهوة ولا دفق ولا يعقبه فتور وربما لا يحس بخروجه وهو أغلب في النساء من الرجال... و منها "ودي" بإسكان الدال المهملة وتخفيف الياء وهو ماء أبيض كدر ثخين لا رائحة له يعقب البول وقد يسبقه أجمع العلماء على أنه لا يجب الغسل بخروج المذي والودي."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب في الغسل، ‌‌فصل عشرة أشياء لا يغتسل منها، ص: 44، ط: المكتبة العصرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100452

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں