بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاتون کے لیے ہاتھ اور پاؤں کے بالوں کو بلیڈ سے صاف کرنے کا حکم


سوال

کیاخاتون کے لیے  ہاتھوں اور پیروں کے بالوں کو ختم کرنے کے لیے ریزر یا بلیڈ کا استعمال جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں خاتون شوہر کی خوشنودی ورضا کی خاطر ہاتھ اور پاؤں کے بال صاف کر سکتی ہے ، محض غیروں کو دکھلانے یا مروجہ فیشن پرستی کے طور پر اس کی اجازت نہیں ہے،  اور اس کے لیے  بہتر یہ ہے کہ دوا، پاؤڈر یا بال صفا کریم وغیرہ سے بالوں کو صاف کرے، لیکن اگر کوئی عورت استرا استعمال کرنے کا طریقہ جانتی ہو اور استعمال سے نقصان نہ ہو  تو استرے  سے بھی بالوں کو صاف کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اس سے بعد میں مزید بدنما بال نکلنے کا اندیشہ رہتا ہے، اس لیے احتیاط کرنا چاہیے۔

التيسير بشرح الجامع الصغير ـ للمناوى میں ہے:

"( كان إذا أطلى ) بالنورة ( بدأ بعورته ) أي بما بين سرته وركبته ( فطلاها بالنورة ) المعروفة ( وسائر جسده أهله ) أي وولى إطلاء ما سوى عورته من جسده بعض أهله أي زوجاته وفيه حل الإطلاء بها وفيه أن التنور مباح لا سنة لعدم ورود الأمر به وفعله له من العاديات فلا يدل على الندب نعم إن قصد الاتباع كان سنة بلا ريب ( ه عن أم سلمة ) ورجاله ثقات".

(حرف الکاف، ج:2، ص:469، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاویٰ شامی (الدر المختارورد المحتار) میں ہے:

"ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها لقوله - صلى الله عليه وسلم - «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة» النامصة التي تنتف الشعر من الوجه والمتنمصة التي يفعل بها ذلك.

(قوله والنامصة إلخ) ذكره في الاختيار أيضا وفي المغرب. النمص: نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه، ففي تحريم إزالته بعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب اهـ، وفي التتارخانية عن المضمرات: ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث اهـ ومثله في المجتبى تأمل".

(كتاب الحظر والإباحة، فصل فی المسّ والنظر، ج:6، ص:372، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101905

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں