بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاتون کو شہوت سے چھونے سے حرمتِ مصاہرت کا حکم


سوال

 اگر کوئی مرد شہوت میں کسی عورت کو ہاتھ لگائے اور پھر سچی توبہ کر لے، تو اس کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرسکتا ہےیا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص کسی  مشتہاۃ (قابلِ شہوت یعنی کم از کم نو سال کی ہو) عورت کو  چھوتا ہے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، لہذا اس شخص پر اس خاتون کے اور اس خاتون پر اس مرد کے  اصول و فروع حرام ہوجاتے ہیں، بشرطیکہ مس (چھونے) کے وقت یا نظر (شرم گاہ کی طرف دیکھنے) کے وقت ہی شہوت پائی جائے ، نیز شہوت پیدا ہونے کی کوئی معتبر علامت پائی جائے، اور شہوت کے ساتھ چھونا اس طور پر ہو کہ درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو اور اگر درمیان میں کوئی کپڑا حائل ہوتو اتناباریک ہوکہ جسم کی حرارت پہنچنے سے مانع نہ ہو، ورنہ حرمت ثابت نہیں ہوگی، اور شہوت کے ساتھ چھونے، بوسہ دینے یا شرم گاہ کو دیکھنے کی وجہ سے انزال نہ ہوا ہو تو جس خاتون کو شہوت سے چھویا ہے  مذکورہ شخص پر ایسے خاتون کی اصول وفروع حرمتِ مصاہرت کے ساتھ حرام ہوجاتا ہے، لہذا اس بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي

(قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ.

(قوله: وناظرة) أي بشهوة (قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج، وحينئذ فإطلاق الكنز في محل التقييد بحر. (قوله: المدور الداخل) اختاره في الهداية وصححه في المحيط والذخيرة: وفي الخانية وعليه الفتوى وفي الفتح، وهو ظاهر الرواية لأن هذا حكم تعلق بالفرج، والداخل فرج من كل وجه، والخارج فرج من وجه والاحتراز عن الخارج متعذر، فسقط اعتباره، ولا يتحقق ذلك إلا إذا كانت متكئة بحر فلو كانت قائمة أو جالسة غير مستندة لا تثبت الحرمة إسماعيل وقيل: تثبت بالنظر إلى منابت الشعر وقيل إلى الشق وصححه في الخلاصة بحر (قوله: أو ماء هي فيه) احتراز عما إذا كانت فوق الماء فرآه من الماء كما يأتي (قوله: وفروعهن) بالرفع عطفا على أصل مزنيته، وفيه تغليب المؤنث على الذكر بالنسبة إلى قوله وناظرة إلى ذكره (قوله: مطلقا) يرجع إلى الأصول والفروع أي، وإن علون، وإن سفلن ط".

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:33، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں