بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاتون کو چھ مہینے بعد نظر آنے والے خون کا حکم


سوال

میری عمر پچاس (50) سال ہے،  مجھے  چھ (6) مہینے بعد حیض آیا ہے،   مجھے معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ خون حیض میں شمار ہوگا؟ روز ہلکا سا خون ہوتا ہے۔ نمازیں بھی نہیں پڑھ رہی ہوں، کافی پریشان ہوگئی ہوں!

جواب

بصورتِ مسئولہ خاتون کی عمرِ ایاس (یعنی حیض کا بند ہوجانے کا زمانہ) شرعی طور پر پچپن (55) سال ہے، اگر کسی خاتون کو پچپن سال کی عمر میں یا اس کے بعد خون نظر آتا ہے، تو وہ حیض شمار نہیں ہوگا، بلکہ استحاضہ (بیماری کا خون) شمار ہوگا، البتہ اگر پچپن سال کی عمر سے پہلے جس بھی عمر  میں تین دن سے زیادہ خون نظر آئے اور اس سے پہلے کامل طہر (پاکی کا زمانہ) گزر چکا ہو تو وہ خون حیض کا خون شمار ہوگا، لہذا مذکورہ خاتون  کی پچاس سال کی عمر  میں خون بند ہوجانے کے بعد چھ ماہ بعد  آنے والا خون حیض  اگر تین یا اس سے زیادہ جاری رہتا ہے تو وہ حیض کا خون شمار ہوگا، اور حیض کے احکام جاری ہوں گے۔

نیز مذکورہ خون چوں کہ حیض کا خون ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر  خون تین دن سے زیادہ نظر آیا  (اگرچہ مسلسل نہ ہو) جیسے کہ سوال سے بھی یہی  ظاہر ہورہا ہے تو ایّامِ عادت تک (اگر ایامِ عادت متعیّن  تھے) نظر آنے والا خون حیض کا خون شمار ہوگا، اور اگر ایام عادت متعین نہیں  ہیں تو دس دن تک نظر آنے والا خون حیض کا خون شمار ہوگا،  حیض کی مدت گزرنے کے بعد (یعنی اگر مذکورہ خاتون کے حیض کے ایّامِ عادت متعین ہیں تو ایّامِ عادت گزرنے کے بعد، اور اگر ایامِ عادت متعین نہیں ہیں تو خون شروع ہونے سے دس دن گزرنے کے بعد)  مزید آنے والا خون  استحاضہ کا خون شمار ہوگا، جس میں مذکورہ خاتون پر ہر وقت کے ليے وضو کرکے  نماز  پڑھنا ضروری ہے۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"وَيَتَوَقَّفُ كَوْنُهُ حَيْضًا عَلَى أُمُورٍ:(مِنْهَا) الْوَقْتُ وَهُوَ مِنْ تِسْعِ سِنِينَ إلَى الْإِيَاسِ. هَكَذَا فِي الْبَدَائِعِ الْإِيَاسُ مُقَدَّرٌ بِخَمْسٍ وَخَمْسِينَ سَنَةً وَهُوَ الْمُخْتَارُ. كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ وَهُوَ أَعْدَلُ الْأَقْوَالِ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ وَعَلَيْهِ الِاعْتِمَادُ. كَذَا فِي النِّهَايَةِ وَالسِّرَاجِ الْوَهَّاجِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. هَكَذَا فِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ فَمَا رَأَتْ بَعْدَهَا لَا يَكُونُ حَيْضًا فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ وَالْمُخْتَارُ أَنَّ مَا رَأَتْهُ إنْ كَانَ دَمًا قَوِيًّا كَانَ حَيْضًا. كَذَا فِي شَرْحِ الْمَجْمَعِ لِابْنِ الْمَلَك."

(كتاب الطهارة، الباب  السادس فى الدماء المختصة بالنساء، الفصل الاول فى الحيض، ج:1، ص:36، ط:مكتبه رشيديه)

الهداية شرح البداية میں ہے:

"أقلّ الحيض ثلاثة أيام و لياليها و ما نقص من ذلك فهو استحاضة قوله عليه الصلاة والسلام: أقل الحيض للجارية البكر و الثيب ثلاثة أيام و لياليها و أكثره عشرة أيام ...و أقل الطهر خمسة عشر يومًا، هكذا نقل عن إبراهيم النخعي و أنه لايعرف إلا توقيفًا، و لا غاية لأكثره؛ لأنه يمتد إلى سنة و سنتين فلايتقدر بتقدير إلا إذا استمر بها الدم فاحتيج إلى نصب العادة ويعرف ذلك في كتاب الحيض ودم الاستحاضة."

(كتاب الطهارة، باب الحيض والاستحاضة، ج:1، ص:30/32، ط:المكتب الاسلامى)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144206200407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں