بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خاتون میت کے سجدے کی جگہوں پر خوشبو لگانے کا کیا حکم ہے؟


سوال

 خاتون میت کے سجدے کی جگہوں پر خوشبو لگانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کے اعضاءِ سجدہ پر "کافور " لگانے کا حکم دیا ہے،لہذا میت کے سجدے کی جگوں پر کافور لگاناسنت ہے خواہ میت مرد ہو یا عورت۔

 اعضاءِ سجدہ پر "کافور" ملنے کا مقصداُن اعضاء کی تعظیم وتکریم اور جلد از جلد کیڑوں کی غذا بننے سے بچانا ہے، اور یہ مقصد دوسری خوشبوؤں اور عطر سے حاصل نہیں ہوسکتا، اس لیے عطر ملنے سے "کافور"  کی سنت ادا نہ ہوگی؛ لہٰذا جہاں تک ہوسکے "کافور" ہی ملا جائے،البتہ مجبوری اور واقعۃً گنجائش نہ ہونے کی صورت میں کوئی اور خوشبو استعمال کرسکتے ہیں۔

مارواه الإمام أبي داود في سننه:

"عن أم عطية، قالت: دخل علينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حين توفيت ابنته، فقال: "اغسلنها ثلاثا، أو خمسا، أو أكثر من ذلك -إن رأيتن ذلك- بماء وسدر، واجعلن في الآخرة كافورا، أو ‌شيئا ‌من ‌كافور، فإذا فرغتن فآذنني" فلما فرغنا آذاه، فاعطانا حقوه، فقال: " أشعرنها إياه."

(‌‌باب كيف غسل الميت،ج:5،ص:61،ط:دار الرسالة العالمية)

وفي شرح أبي داود للعیني:

"ویستفاد من الحدیث فوائد،الأولی:وجوب غسل المیت. الثانیة: استحباب الإیجار في الغَسل. الثالثة: استحباب غَسله بالسدر، أو بما فی معناہ من أشنان ونحوہ،لأن ہذا أبلغ في التنظیف. الرابعة: استحباب شيء من الکافور في آخر الماء،وقال أصحابنا: یستحب أن یجعل الکافور علی مساجدہ وهي: الجبهة،والأنف،والیدان،والرکبتان،والقدمان."

(باب: كيف غسل الميت؟،ج:6،ص:71،ط:مكتبة الرشد،الرياض)

وفي الإختیار لتعلیل المختار:

"(والکافور علی مساجدہ) لأن التطییب سنة، وتخصیص مواضع السجود تشریفا لها."

(فصل صفة الكفن،ج:1،ص:92،ط:دار الكتب العلمية،بيروت)

في حاشیة الطحطاوي:

"ویجعل الکافور علی مساجد لیطرد الدود عنها، وفي الطحطاوي: هنا حکمة تخصیص الکافور، فتخصیص بزیادة إکرام لها، أي لما کانت هذه الأعضاء یسجد بها خصت بزیادة إکرام صیانة لها عن سرعة الفساد."

(‌‌باب أحكام الجنائز،ص:571،ط:دار الكتب العلمية بيروت،لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101580

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں