بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاتون کو حاکم بنانے کا حکم


سوال

اسلام میں عورت کا سیاست میں آنا اور حاکم بننا کیسا ہے؟

جواب دلائل قویہ سے مطلوب ہے۔

جواب

خاتون کو حاکم بنانا شرعًا ممنوع ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں کسی خاتون کو کسی شہر کا حاکم، یا والی نہیں بنایا اور نہ ہی خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے کسی خاتون کو یہ منصب عطا کیا، اسی وجہ سے امت کا اجماع ہے کہ خاتون کو حاکم بنانا جائز نہیں،  البتہ کسی ایسے شعبہ کا ذمہ دار بنانے کی شرعًا اجازت ہے، جس کا تعلق خواتین سے ہی ہو، رہی بات خواتین سے مشاورت کی تو حدودِ  شرع میں رہتے ہوئے انہیں مشاورت میں شریک کرنے کی اجازت ہے، جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بعض ازواج سے مشاورت کرنا ثابت ہے،  پس شرعی حدود میں  مجلس شوری ( اسمبلی ) کا ممبر بننے کی گنجائش ہوگی۔

"صحیح البخاری" میں ہے:

 "حدثنا عثمان بن الهيثم حدثنا عوف عن الحسن عن أبي بكرة قال: "لقد نفعني الله بكلمة سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم أيام الجمل بعد ما كدت أن ألحق بأصحاب الجمل، فأقاتل معهم قال: لما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أهل فارس قد ملكوا عليهم بنت كسرى، قال: «لن يفلح قوم ولّوا أمرهم امرأة»".

( كتاب المغازي، باب كتاب النبي صلي الله عليه وسلم إلى كسرى و قيصر، رقم الحديث ٤١٦٣)

ترجمہ: حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ جمل کے زمانے میں اللہ نے مجھے ایک فرمان کی وجہ سے نفع پہچایا جو میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنا تھا ۔۔۔ وہ یہ کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ اہلِ فارس نے کسری کی بیٹی کو سلطنت کی حکمرانی دے دی ہے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیں:

عورت کی حکمرانی سے متعلق ایک روایت

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"يقول تعالى: الرجال قوامون على النساء أي الرجل قيم على المرأة، أي هو رئيسها وكبيرها والحاكم عليها ومؤدبها إذا اعوجت، بما فضل الله بعضهم على بعض أي لأن الرجال أفضل من النساء، والرجل خير من المرأة، ولهذا كانت النبوة مختصة بالرجال، وكذلك الملك الأعظم لقوله صلى الله عليه وسلم: «لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة» رواه البخاري من حديث عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه، وكذا منصب القضاء وغير ذلك.

(النساء: ٣٤، ٢ / ٢٥٦، ط: دار الكتب العلمية)

احكام القرآن لابن العربي میں ہے:

[مسألة المرأة لا تكون خليفة]

المسألة الثالثة: روي في الصحيح  «عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال حين بلغه أن كسرى لما مات ولى قومه بنته: لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة».

وهذا نص في أن المرأة لا تكون خليفة، ولا خلاف فيه.

( النمل: ١٦، ٣ / ٤٨٢، ط: دار الكتب العلمية)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

مطلب لا يصح تقرير المرأة في وظيفة الإمامة.

[تنبيه] وأما تقريرها في نحو وظيفة الإمام فلا شك في عدم صحته لعدم أهليتها خلافا لما زعمه بعض الجهلة أنه يصح وتستنيب، لأن صحة التقرير يعتمد وجود الأهلية، وجواز الاستنابة فرع صحة التقرير اهـ أبو السعود.

( كتاب القضاء، باب كتاب القاضي إلى القاضي وغيره، ٥ / ٤٤٠، ط: دار الفكر)

الشرح الكبير علي المقنع میں ہے:

ولا تصلح للامامة العظمى، ولا لتولية البلدان، ولهذا لم يول النبي - صلى الله عليه وسلم -، ولا أحد من خلفائه، ولا من بعدهم، امرأة قضاء ولا ولاية بلد، فيما بلغنا، ولو جاز ذلك لم يخل منه جميع الزمان غالبا. الخامس، الحرية، فلا تصح تولية العبد؛ لأنه منقوص برقه، مشغول بحقوق سيده، لا تقبل شهادته في جميع الأشياء، فلم يكن أهلا للقضاء، كالمرأة.

( كتاب القضاء، ٢٨ / ٢٩٩، ط: هجر للطباعة والنشر والتوزيع والإعلان، القاهرة - جمهورية مصر العربية)

مراتب الإجماع في العبادات والمعاملات والاعتقادات لابن حزم میں ہے:

"و اتفقوا أن الإمامة لاتجوز لامرأة."

( الإمامة و حرب أهل الردة ودفع المرء عن نفسه وقطع الطريق، ص: ١٢٦، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں