بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خاتون کا ڈرائیور کے ساتھ اکیلے جانے کا حکم


سوال

 عورت کا مرد کے ساتھ خلوت میں ہونے کی ممانعت ہے۔ جو طالبات وین سے اسکول یا مدرسے جاتی ہیں ان کا ڈرائیور کے ساتھ اکیلا ہونا کیسا ہے؟

کیوں کہ جب ڈرائیور پہلی طالبہ کو لے گا اور آخری طالبہ کو چھوڑے گا تو وہ دونوں روز کچھ وقت ڈرائیور کے ساتھ خلوت میں ہوں  گی ۔ کیا یہ اجنبی کے ساتھ خلوت شمار ہوگی؟ اور ایسا ہونا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ غیر محرم ڈرائیور کے ساتھ کسی عورت کا اکیلے سوار ہونا جائز  نہیں؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا  فرمان ہے  کہ:  کوئی آدمی کسی عورت کے محرم کے بغیر اس کے ساتھ خلوت میں نہ جائے، نیز فرمایا کہ:  کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ  خلوت میں نہ جائے؛ کیوں کہ تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے، لہذا اس سے احتراز لازم ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مدرسہ یا اسکول بھیجتے ہوئے بالغ لڑکی کو اکیلے ڈرائیور کے ساتھ روانہ نہ کیا جائے، بلکہ اس کے ساتھ کوئی محرم ساتھ جایا کرے، یا کچھ طالبات ایک جگہ جمع ہوجایا کریں، پھر وین میں سوار ہوا کریں۔

صحیح البخاری میں ہے:

" ٥٢٣٣ - حدثنا ‌علي بن عبد الله: حدثنا ‌سفيان: حدثنا ‌عمرو، عن ‌أبي معبد، عن ‌ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم. فقام رجل فقال: يا رسول الله، امرأتي خرجت حاجة واكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال: ارجع فحج مع امرأتك."

( كتاب النكاح، باب: لا يخلون رجل بامرأة إلا ذو محرم، والدخول على المغيبة، ٧ / ٣٧، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

ترجمہ:

"عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ محرم کے سوا کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ بیٹھے۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بیوی حج کرنے گئی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو واپس جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر"

سنن ترمذی میں ہے:

"عن ‌ابن عمر قال: «خطبنا ‌عمر بالجابية،» فقال: يا أيها الناس، إني قمت فيكم كمقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فينا، فقال: أوصيكم بأصحابي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، ثم يفشو الكذب حتى يحلف الرجل ولا يستحلف، ويشهد الشاهد ولا يستشهد، ألا لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان، عليكم بالجماعة وإياكم والفرقة، فإن الشيطان مع الواحد وهو من الاثنين أبعد، من أراد بحبوحة الجنة فليلزم الجماعة، من سرته حسنته وساءته سيئته فذلك المؤمن." 

( أبواب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في لزوم الجماعة، ٤ / ٣٨، رقم: ٢١٦٥، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:

"عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مقام جابیہ میں (میرے والد) عمر رضی الله عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں، پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تبع تابعین) کی، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اور گواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا، خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور گروہ بندی سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے، دو کے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دور کی بات ہے، جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اور گناہ سے غم لاحق ہو حقیقت میں وہی مومن ہے" ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100816

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں