بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خاتون ڈاکٹر کا مرد مریض کا علاج کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے ڈینٹل کالج کے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں دانتوں کے علاج معالجہ کے لئے دستیاب ڈاکٹرز میں سے 29 لڑکیاں اور 4 لڑکے ہیں ِ جب کہ مریضوں میں خواتین وحضرات کی تعداد تقریبا برابر ہوتی ہے، اس لئے مجبوراً لڑکیوں کو مردوں کا علاج معالجہ کرنا پڑتا ہے، دورانِ علاج، لڑکیاں دستانے پہننے اور پردہ کرنے کا انتہائی اہتمام کرتی ہیں، برائے مہربانی ہمیں شرعی حکم سے آگاہ کریں؟

جواب

واضح رہے کہ مرد کے لیے غیر محرم عورت کے جسم کو چھونا،اسی طرح عورت کا اپنے غیر محرم مرد کے جسم کے کسی بھی حصہ کو چھونا حرام اور کبیرہ گناہ ہے،شریعت میں مرد کو عورت کا جسم چھونے کی یا عورت کو مرد کاجسم چھونے کی انتہائی مجبوری کی حالت کے بغیر بالکل اجازت نہیں دی گئی ہے، علاج و معالجہ کی صورت میں مرد و عورت کا ایک دوسرے کے جسم کو چھونے یا ستر دیکھنے کے بارے میں تفصیل یہ ہےکہ  کسی آدمی کا علاج کرنے کے لیےاصل تو یہ ہے کہ  اسی کی جنس کے مسلم معالج سے علاج کرایا جائے، اگر کوئی مسلم معالج موجود نہ ہو تو غیر مسلم ڈاکٹر سے رجوع کیا جاسکتا ہے،اگر وہ بھی دستیاب نہ ہویااسی کی جنس میں سےکسی کوعلاج سکھایاجائےتواس کو علاج معالجہ سکھانے کے انتظار میں مبتلابہ(مریض)شخص کے ہلاک ہوجانے یااس کو  ناقابلِ برداشت تکلیف اور درد کا خطرہ ہو،تو پھر خلافِ جنس کی طرف رجوع کرکےاس سےعلاج کرانے کی مشروط اجازت ہے،البتہ مرض کی تشخیص اور علاج میں صرف اسی قدر حصے کو دیکھنا اور چھونا درست ہے،جس قدر ضرورت ہو،بقدرِ استطاعت نگاہیں نیچی رکھنا بھی ضروری ہے،نیز اگر کوئی مرد کسی خاتون کا علاج کرے یا کوئی خاتون کسی مرد کا علاج کرے تو علاج کے وقت خلوت نہ ہو،کوئی تیسرا فرد بھی موجود ہو۔

صورتِ مسئولہ میں اولاً تو خواتین کا اپنے گھروں سے بلاضرورت باہر نکلنا اور پھرفتنہ کے اندیشہ کے زمانے میں نامحرم مردوں کے ساتھ بے پردہ کام کرنا ہی ناجائز ہے،اور بالفرض اگر ان کے گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت کو تسلیم کربھی لیا جائے تو بھی خواتین کے لیے مردوں کا علاج کرنے کے لیے ان کےجسم کے کسی حصہ کوبلاضرورت چھوناجائز نہیں ہے،الا یہ کہ مجبوری کی ایسی صورت ہو جو کہ اوپر ذکر کی گئی ہے کہ مرد کا علاج کرنے کے لیے کوئی بھی طالبِ علم یا استاد مرد دستیاب نہ ہو،یا کسی اور مریض کے علاج میں وہ اس حد تک مصروف ہو کہ نئے آنے والا مریض کے،  مرد ڈاکٹر کے انتظار میں ہلاک ہوجانے یا اسےانتہائی ناقابلِ برداشت تکلیف ہوجانے کا خطرہ ہو،تو ایسی صورت میں خاتون ڈاکٹر کو مرد مریض کا علاج کرنے کی محدود اجازت  ہے۔

"أحکام القرآن للجصاص" میں ہے:

"وقرن في بيوتكن ...وفيه الدلالة على أن النساء مأمورات بلزوم البيوت ‌منهيات ‌عن ‌الخروج."

(ص:٤٧١،ج:٣،سورۃ الأحزاب،الآية:٣٣،ط:دار الكتب العلمية)

"فتح الباري لابن حجر"میں ہے:

"عن الربيع بنت معوذ قالت كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم نسقي ونداوي الجرحى ونرد القتلى إلى المدينة" ... وفيه جواز معالجة المرأة الأجنبية الرجل الأجنبي للضرورة قال بن بطال ويختص ذلك بذوات المحارم ثم بالمتجالات منهن لأن موضع الجرح لا يلتذ بلمسه بل يقشعر منه الجلد فإن دعت الضرورة لغير المتجالات فليكن بغير مباشرة ولا مس ويدل على ذلك اتفاقهم على أن المرأة إذا ماتت ولم توجد امرأة تغسلها أن الرجل لا يباشر غسلها بالمس بل يغسلها من وراء حائل في قول بعضهم كالزهري وفي قول الأكثر تيمم وقال الأوزاعي تدفن كما هي قال بن المنير الفرق بين حال المداواة وتغسيل الميت أن الغسل عبادة والمداواة ضرورة والضرورات تبيح المحظورات."

(ص:٨٠،ج:٦،کتاب الجهاد،باب مداواة النساء الجرحي،ط:دار المعرفة،بيروت)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"نظر المرأة إلى الرجل الأجنبي كنظر الرجل إلى الرجل تنظر إلى جميع جسده إلا ما بين سرته حتى يجاوز ركبته، وما ذكرنا من الجواب فيما إذا كانت المرأة تعلم قطعا ويقينا إنها لو نظرت إلى بعض ما ذكرنا من الرجل لا يقع في قلبها شهوة، وأما إذا علمت أنه تقع في قلبها شهوة أو شكت ومعنى الشك استواء الظنين فأحب إلي أن تغض بصرها منه،...ولا تمس شيئا منه إذا كان أحدهما شابا في حد الشهوة وإن أمنا على أنفسهما الشهوة."

(ص:٣٢٧،ج:٥،کتاب الکراهية،الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له،ط:دار الفکر،بیروت)

"فتاوي قاضيخان"میں ہے:

"امرأة أصابتها قرحة في موضع لا يحل للرجل أن ينظر إليه و لكن يعلم امرأة ‌لتداويها، فإن لم يجدوا امرأة ‌تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع."

(ص:٣١١،ج:٣،کتاب الحظر والإباحة،باب فيما يكره من النظر والمس للأقارب والأجانب ومالا يكره،ط:دار الکتب العلمیة)

"الأشباه والنظائر"میں ہے:

"وتحرم الخلوة بالأجنبية ويكره الكلام معها."

(ص:٢٧٩،الفن الثالث،أحكام الأنثى،ط:دار الكتب العلمية)

"رد المحتار على الدر المختار"ميں ہے:

"ينظر الطبيب إلى موضع مرضها بقدر الضرورة إذ الضرورات تتقدر بقدرها وكذا نظر قابلة وختان وينبغي أن يعلم امرأة تداويها لأن نظر الجنس إلى الجنس أخف."

(قوله وينبغي إلخ) كذا أطلقه في الهداية والخانية. وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل والظاهر أن"ينبغي" هنا للوجوب."

(ص:٣٧١،ج:٦،كتاب الحظر والإباحة،‌‌فصل في النظر والمس،ط:ايج ايم سعيد)

وفيه أيضا:

"(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها ... (إلا من أجنبية) فلا يحل مس وجهها وكفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ."

(ص:٣٦٧،ج:٦،كتاب الحظر والإباحة،‌‌فصل في النظر والمس،ط:ايج ايم سعيد)

وفيه أيضا:

"ولا يجوز له أن يمس وجهها ولا كفيها وإن أمن الشهوة لوجود الحرمة وانعدام الضرورة والبلوى اهـ.ومثله في غاية البيان عن شرح الأقطع معللا بأن المس أغلظ فمنع بلا حاجة، وفي درر البحار وشرحه لا يحل المس للقاضي والشاهد والخاطب، وإن أمنوا الشهوة لعدم الحاجة."

(ص:٣٧٠،ج:٦،كتاب الحظر والإباحة،‌‌فصل في النظر والمس،ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں