ختنہ کروانے کا کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کریں۔
واضح رہے کہ ختنہ کرانا سنتِ مؤکدہ ہے،اور ختنہ شعائر اسلام میں سے ہیں۔ لہذا بغیر کسی شرعی عذرکے اس کا چھوڑنا جائز نہیں۔ اور نو مسلم پر بھی اسلام لانے کے بعد ختنہ کروانا ضروری ہوتاہے، لیکن اگر نو مسلم اتنا کمزور اور ضعیف العمر ہو کہ اس میں ختنہ کی تکلیف برداشت کرنے کی طاقت نہ ہو اور کوئی ماہر ڈاکٹر بھی اس کی تصدیق کردے، تو پھر اس کے لیے عذر کی بنیا د پر ختنہ نہ کرانے کی گنجائش ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أبي أيوب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أربع من سنن المرسلين: الحياء ۔ويروى الختان۔ والتعطر والسواك والنكاح. رواه الترمذي."
(كتاب الطهارة، باب السواك، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 85، رقم: 382، ط: بشري)
الدر المختار میں ہے:
"(و) الأصل أن (الختان سنة) كما جاء في الخبر (وهو من شعائر الإسلام) وخصائصه (فلو اجتمع أهل بلدة على تركه حاربهم) الإمام فلا يترك إلا لعذر وعذر شيخ لا يطيقه ظاهر (ووقته) غير معلوم وقبل (سبع) سنين كذا في الملتقى وقيل عشر وقيل أقصاه اثنتا عشرة سنة وقيل العبرة بطاقته وهو الأشبه وقال أبو حنيفة: لا علم لي بوقته ولم يرد عنهما فيه شيء فلذا اختلف المشايخ فيه."
(شامي، مسائل شتى، ج: 6، ص: 751، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الشيخ الضعيف إذا أسلم ولا يطيق الختان إن قال أهل البصر لا يطيق يترك لأن ترك الواجب بالعذر جائز فترك السنة أولى كذا في الخلاصة."
(كتاب الكراهية، الباب التاسع عشر في الختان...، ج: 5، ص: 357، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411102504
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن