بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ختنہ کرنے والے،میت کو غسل دینے والے ،بھیک مانگنے والے امام کے کی اقتداء کا حکم


سوال

کیا ان ائمہ  کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؟ ایک وہ امام جو ختنہ کرتا ہو، دوسرا وہ جو میت کو غسل دیتا ہو، تیسرا وہ جو مانگ کر کھاتا ہو۔

جواب

1) ختنہ کرنا ایک جائز کام ہے ،اور اس میں کوئی عیب نہیں ہے،لہذا ختنہ کرنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے،البتہ جہاں اس پیشہ کو حقیر سمجھا جاتا ہو وہاں ایسے شخص کی امامت مکروہ ہوگی۔

2)میت کو غسل دینا مسلمانوں کےذمہ نمازِ جنازہ کی طرح فرضِ کفایہ   ہے ،لہذا جیسے نماز جنازہ  پڑھنے والےکی امامت میں کوئی خرابی نہیں اسی طرح غسل دینے والے کی امامت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے،البتہ میت کو غسل دینے والا شخص بداخلاقی کرتا ہو،یا اس کا م پر اجرت لیتا ہو،اور  اس جگہ کے عرف میں میت کو غسل دینے والے کو حقیر سمجھا جاتا ہوتو وہا ں ایسے شخص کی امامت مکروہ ہوگی،اور جہاں ایسا عرف نہیں وہاں مکروہ نہیں ہوگا۔

3) جس شخص کے پاس ایک دن یا اس سے زیادہ  کھانے کی مقدار موجود ہو تو ایسے شخص کے لیے مانگنا جائز نہیں،اگر اتنی مقدار کے باوجود وہ مانگتا ہے ایسے شخص کے پیچھے نماز  مکروہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقيل في ختان الكبير إذا أمكنه أن يختن نفسه فعل أي يختنه غيره."

(کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء،382/6،ط:ایچ ایم سعید)

درمختار میں ہے:

"والصلاة عليہ فرض كفاية كدفنه وغسله وتجهيزه فإنها فرض كفاية."

(کتاب الصلوۃ،باب صلوۃ الجنازۃ،207/2،ط:ایچ ایم سعید)

وفیہ ایضاً:

"(والأفضل أن يغسل) الميت (مجانا، فإن ابتغى الغاسل الأجر جاز إن كان ثمة غيره وإلا لا) لتعينه عليه، وينبغي أن يكون حكم الحمال والحفار كذلك."

(کتاب الصلوۃ،باب صلوۃ الجنازۃ،199/2،ط:ایچ ایم سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

"عنوان:میت کو غسل دینے والے کو امام مقرر کرنا کیسا ہے؟

جواب:(از حضرت مفتی اعظمؒ)اگر غسال اجرت لیتا ہواور بد اخلاقی کے اعمال اس سے صادر ہوتے ہوں تو اس کی امامت مکروہ ہوگی ،کیوں کہ ایسے شخص کو لوگ نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔"

(کتاب الصلوۃ،89/3،ط:دارالاشاعت)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"عنوان :ختنہ کرنے والے کی امامت:(سوال ۷۸۷) ختنہ کرنے والے کی امامت کیسی ہے؟

(الجواب ) جائز ہے ۔فقط."

(کتاب الصلوۃ ،باب الامامۃ،117/3،ط:دارالاشاعت)

وفیہ ایضاً:

"عنوان :پیشہ کے طور پر بھیک مانگنے والوں کی امامت:(سوال ۱۱۳۲) جن فقیروں کا پیشہ بھیک مانگنے کا ہے ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

(الجواب ) سوال کا پیشہ رکھنے والا فقیر اکثر امرحرام کا مرتکب ہوتا ہے، کیوں کہ ان کو سوال کرنا درست نہیں ہوتا، بہت سے ان میں سے غنی اور مالدار ہوتے ہیں اور بہت سے تو انا و تندرست ہوتے ہیں جو محنت و مزدوری کر سکتے اور کھانے کو ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اس صورت میں چوں کہ وہ فقیر جس کا یہ حال ہو جو مذکورہو ا شرعاً فاسق ہوجاتا ہے اور فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔   فقط."

(کتاب الصلوۃ،باب الامامۃ والجماعۃ،212/3،ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100419

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں