ختمِ قرآن یا ختمِ بخاری کے موقع پر لڑکوں کو ہار پہنانا شرعی اعتبار سے کیسا ہے ؟بعض علماءکرام اس کا ردکرتےہیں۔
واضح رہے کہ مختلف تقریبات کے موقع پر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے دوسرے فرد کی خوشی میں شریک ہونا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے ،البتہ ایسے موقع پر ہار پہنانا ایک قابل ترک رسم ہے ،شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں؛ اس لیے ان چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
"شادی وغیرہ کے موقع پر دولہا وغیرہ کو پھولوں کا ہار پہنانا قرآن پاک، حدیث شریف، آثار صحابہ، فقہ سے کہیں ثابت نہیں۔۔۔۔اس رسم کو بالکل ختم کردیا جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔"
(فتاوی محمودیہ ، ج:22،ص:468۔ط:فاروقیہ کراچی)
فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:
"ختم قرآن کی شب حفاظ کو پھولوں کو ہار پہنایا جاتا ہے، یہ رواج برا اور قابلِ ترک ہے۔اور اس میں اسراف بھی ہے۔۔۔۔یہ رواج پسند نہیں ہے اور خلاف شرع ہے۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔"
(فتاویٰ رحیمیہ، ج:6، ص:258، ط:دارالاشاعت کراچی)
خیرالفتاوی میں ہے:
"دولہا اسی طرح حجّاج کرام کو نوٹوں وغیرہ کا ہار پہنانا محض ایک رسم ہے،اس سے احتراز لازم ہے،سلف صالحین میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔"
( خیرالفتاویٰ، ج:4، ص:587، ط:مکتبہ امدادیہ ملتان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408101066
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن