بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ختم قرآن کے موقع پر کھانا کھلانے کا حکم


سوال

ختم قرآن کے موقع پر کھانا کھانے کا کیا حکم ہے اور اگر کوئی شخص ختم قرآن کے موقع پر بغیر کسی سے چندہ مانگے ہوئے خود سے کھانے کا انتظام کرے تواسکا کیا حکم ہے ؟

جواب

 اگر ختمِ  قرآن کسی مکان میں برکت یا کسی بیمار کی صحت کے لیے ہے تو  یہ جائز ہے  اور  اس کے بعد کھانا کھلانے اور کھانے میں بھی  حرج نہیں،  نیز  تراویح میں قرآنِ  پاک ختم کرنے کے بعد اگر لوگوں سے چندہ کیے بغیر کوئی ایک یا چند لوگ اپنی خوشی سے کھانے کا اہتمام کرلیں اور اسے لازم نہ سمجھا جائے اور مسجد کے آداب کا بھی خیال ملحوظ رہے تو ختمِ قرآن پر کھانا کھلانا اور کھانا جائز ہے۔

لیکن اگر ختمِ قرآن کسی میت کے ایصالِ ثواب کے لیے ہو  اور کسی قسم کی قیود اور  وقت کی تخصیص اور کسی خاص اہتمام کے بغیر اپنے مخلص احباب جمع ہوجائیں اور قرآن کریم ختم کرکے میت کو اس کا ثواب بخش دیں تو یہ جائز، بلکہ باعث ثواب ہے، البتہ ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کے بعد کھانا کھلانے اور کھانے سے اجتناب کیا جائے۔ اگر اسے لازمی سمجھا جائے، یا بطورِ اجرت ہو تو یہ جائز نہیں ہوگا، اور بطورِ اجرت نہ ہو  لیکن عرف ہو تو کھانا کھلانے میں ایک گونہ اجرت ہونے کا شائبہ پایا جاتا ہے؛ اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص، والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاة الجنازة، مطلب في الثواب على المصيبة، ج: 2، صفحہ: 240، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیه أیضاً:

"فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون اهـ."

(کتاب الاجارۃ، مطلب في الاستئجار على المعاصي، ج: 6، صفحہ: 56، ط: ایچ، ایم، سعید)

چنا نچہ فتاوی محمودیہ میں ہے: 

"قرآنِ کریم پڑھ کر ثواب پہنچانا مفید ہے، ہز گز گناہ نہیں ۔۔۔  اور پڑھنے والوں کو کھانا کھلایا جائے یہ ثابت نہیں ، یہ کھانا پڑھنے اور ختم کرنے کی اجرت کے درجہ میں آتا ہے جو کہ شرعاً منع ہے۔  فتاوی بزایہ، ردالمحتار وغیرہ میں اس کو بدعت اور مکروہ لکھا ہے، اس کو اجرت کے تحت پڑھنے سے ثواب نہیں ہوتا، بلکہ گناہ ہوتا ہے۔"

(فتاوی محمودیہ، ج: 3، صفحہ: 72 و73، ط: دارہ الفاروق کراچی) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101418

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں