بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ختم قرآن کے موقع پر چندہ کرکے حافظِ قرآن کو رقم دینا یا مٹھائی تقسیم کرنے کا حکم


سوال

1. تراویح میں ختم قرآن مجید کے بعد جو چندہ کر کےحافظِ قرآن کو رقم دی جاتی ہے وہ شرعاً صحیح ہے یا نہیں؟

2. مذکورہ رقم سے مٹھائی اور چائے کا انتظام کیا جاتا ہے، کیا یہ شرعاً ٹھیک ہے؟ براہِ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ 

جواب

1.واضح رہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید سناکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے  دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا، اس حالت میں بہترہےکہ  ﴿اَلَمْ تَرَكَیْفَ﴾ وغیرہ مختصر سورتوں یا آیات سے تراویح پڑھادی جائے، اس سےبھی تراویح کی سنت ادا ہوجائےگی۔ اسی طرح قرآن مجید سننے پر بھی اجرت کا لینا دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر  نمازی حضرات انفرادی طوری قاری یا سامع کو  ہدیہ کے طور پر کچھ  دے دیں تو  یہ  جائز  ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں اگر مسجد والے انفرادی طور پر حفاظ کرام کو اپنی خوشی سے رقم وغیرہ ہدیہ کے طور پر دینا  چاہیں دے سکتے ہیں، ثواب ملےگا، حوصله  افزائي  هوگي۔

2.   تراویح  میں  تکمیلِ  قرآنِ کریم  کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے، اگر ختم  پر  مٹھائی تقسیم کرنے  کے لیے لوگوں سے چندہ لیا جاتاہےتو یہ درست نہیں ہے، اس کو ترک کرنا ضروری ہے، تاہم اگر     مٹھائی تقسیم کرنے کو ضروری نہ سمجھا جائے،  اور لوگوں سےاس کے لیے چندہ نہ کیا جائے،  بلکہ نمازی حضرات انفرادی طور پر   اپنی خوشی سے  مٹھائی تقسیم کردیں  تو اس میں مضائقہ نہیں ہے،  تقسیم کے وقت مسجد کی حرمت کا خیال رکھنا لازم ہے، شور و غل سے اجتناب کیا جائے،  اور   مسجد کے اندر تقسیم کرنے کے بجائے دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’سوال : 1۔ رمضان المبارک میں تراویح میں ختم قرآن ہوتا ہے اس دن شیرینی تقسیم کرنا کیسا ہے؟ بینوا تؤجروا۔

2۔ شیرینی صرف ایک شخص کی طرف سے تقسیم ہوتی ہے۔ چندہ نہیں کرتے تو یہ درست ہے یا نہیں؟

3۔شیرینی جماعت خانہ میں تقسیم کرسکتے ہیں یا صحن میں کی جائے؟بینوا تؤجروا۔

الجواب:1۔ضروری نہیں ہے، لوگوں نے اسے ضروری سمجھ لیا ہے اور بڑی پابندی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے، لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، مسجدوں میں بچوں کا اجتماع اور شور و غل وغیرہ خرابیوں کے پیشِ نظر اس دستور کو موقوف کردینا ہی بہتر ہے۔

2۔امامِ تراویح یا اور کوئی ختمِ قرآن کی خوشی میں کبھی کبھی شیرینی تقسیم کرے اور مسجد کی حرمت کا لحاظ رکھا جائے تو درست ہے۔

3۔مسجد کا فرش خراب نہ ہو، خشک چیز ہو اور مسجد کی بے حرمتی لازم نہ آئے تو درست ہے، بہتر یہ ہے کہ دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔

فقط واللہ اعلم بالصواب۔‘‘

(مسائلِ تراویح، ج:6، ص:243-244، ط:دار الاشاعت)

البحر الرائق میں ہے:

"أخرجه المنذري مرفوعا : (جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم وبيعكم وشراءكم ورفع أصواتكم وسل سيوفكم وإقامة حدودكم وجمروها في الجمع واجعلوا على أبوابها المطاهر)."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ج:2، ص:37، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی (حاشية ابن عابدين ) میں ہے:

"والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ.

وقد اغتر بما في الجوهرة صاحب البحر في كتاب الوقف وتبعه الشارح في كتاب الوصايا حيث يشعر كلامها بجواز الاستئجار على كل الطاعات ومنها القراءة.

وقد رده الشيخ خير الدين الرملي في حاشية البحر في كتاب الوقف حيث قال: أقول المفتى به جواز الأخذ استحسانا على تعليم القرآن لا على القراءة المجردة كما صرح به في التتارخانية حيث قال: لا معنى لهذه الوصية ولصلة القارئ بقراءته؛ لأن هذا بمنزلة الأجرة والإجارة في ذلك باطلة وهي بدعة ولم يفعلها أحد من الخلفاء".

(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار على الطاعات، ج:6، ص:56، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں