بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ختمِ نبوت کے فنڈ میں جمع شدہ رقم کاروبار میں لگانے یا کسی کو قرض پر دینے کا حکم


سوال

ختم نبوت کے فنڈ کو کاروبار میں لگانا نفع نقصان کے ساتھ،  یا کسی کو قرض دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

"ختمِ نبوت "  کے تحفظ کی تحریک کے لیے  جمع شدہ فنڈ   (پیسے)  اس  کی کمیٹی یا متولی و خزانچی کے پاس امانت ہوتا ہے،  اس کا متولی ختمِ نبوت کے  لیے جمع شدہ   رقم صرف اسی کے اخراجات اور مصالح میں لگانے کا پابند ہے، لہذا  مذکورہ فنڈ کے پیسے  بڑھانے کی نیت سے مذکورہ فنڈ کو کسی کے  کاروبار (تجارت) میں لگانے کے لیے دینا یا کسی کو قرض دینا جائز نہیں ہیں، کیوں کہ مذکورہ  فنڈ  (پیسے)  امانت ہے  اور  امانت کو تجارت میں لگانا خیانت ہے، حلال تجارت میں نفع و نقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے، ایسی تجارت جس میں نفع کی ضمانت دی جائے وہ شرعًا ’’جائز تجارت‘‘ نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا حلال تجارت میں نقصان کا امکان ہونے کی وجہ  سے بھی وقف  کی رقم کو تجارت (کاروبار) میں لگانا جائز نہیں ہوگا۔  نیز  چوں کہ وقف کو واقف کی منشا  کے مطابق استعمال کرنا لازم ہے اور  ختم نبوت کے فنڈ میں  پیسوں کے بارے میں واقف کی منشا  کاروبار میں لگاکر بڑھانا نہیں ہے، بلکہ مذکورہ ادارے  میں  لگا کر ثواب حاصل کرنا ہے، ورنہ واقف خود ہی کاروبار میں لگاکر بڑھانے کے بعد فنڈ میں  دے دیتا، لہٰذا واقف کی منشا  کی خلاف ورزی ہونے کی وجہ سے بھی مذکورہ فنڈ کے پیسے کسی کاروبار (تجارت) میں لگانا  یا کسی کو قرض دینا جائز نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"الوديعة لاتودع و لاتعار و لاتؤاجر و لاترهن، وإن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."

 (كتاب الوديعة، الباب الاول فى تفسير الايداع، ج:4، ص:338، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"في فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - رجل جمع مالا من الناس لينفقه في بناء المسجد فأنفق من تلك الدراهم في حاجته ثم رد بدلها في نفقة المسجد لا يسعه أن يفعل ذلك فإن فعل فإن عرف صاحب ذلك المال رد عليه أو سأله تجديد الإذن فيه وإن لم يعرف صاحب المال استأذن الحاكم فيما يستعمله وإن تعذر عليه ذلك رجوت له في الاستحسان أن ينفق مثل ذلك من ماله على المسجد فيجوز، لكن هذا واستثمار الحاكم يجب أن يكون في رفع الوبال أما الضمان فواجب، كذا في الذخيرة." 

(كتاب الاوقاف، الباب الثالث عشر فى الاوقاف اللتى يستغنى عنها، ج:2، ص:480، ط:مكتبه رشيديه)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"قال في جامع الفصولين ليس للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن." 

(كتاب الوقف، تصرفات الناظر فى الوقف، ج:5، ص:259، ط:دارالكتاب الاسلامى)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144209200764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں