بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں یا ایصال ثواب میں ختم قرآن پر پیسے لینا


سوال

ختم قرآن مجید پر پیسے لینا کیسا ہے؟

جواب

سوال میں ختمِ قرآن پر پیسے لینے سےمراد اگر ترایح میں ختمِ قرآن کے موقع پر حافظ صاحب کا پیسے لینا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر حافظ صاحب کو ان کی طرف سے مطالبے کے بغیر انفرادی طور پر   کچھ رقم یا ہدیہ وغیرہ دے دیا جائے اور نہ دینے پر شکایت بھی نہ ہو تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر تراویح میں قرآن سنانے کی باقاعدہ اجرت طے کی جائے یا اجرت طے تو نہ ہو لیکن رواج ایسا ہو کہ لوگ ختمِ قرآن کے موقع پر بطورِ اجرت کچھ دینے اور لینے کے عادی ہوں کہ اگر اجرت نہ دی جائے تو حافظ صاحب تراویح نہ پڑھائیں  تو ایسی صورت میں حافظ صاحب کے لیے پیسے لینا اور لوگوں کا پیسے دینا جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ رقم قرآن مجید پڑھنے کے عوض کے طور پر دی جا رہی ہے کہ اجرت لے کر قرآن مجید پڑھنے والا ثواب سے محروم رہتا ہے۔

اور اگر سوال سے مراد میت کے لیے ایصالِ ثواب  کے موقع پر ختمِ قرآن کرنے والے کے پیسے لینے کا حکم معلوم کرنا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ ایصالِ ثواب کے لیے پڑھے گئے قرآن مجید کے ختم پر پیسے لینا اور دینا ناجائز ہے اور پیسے لینے کی صورت میں نہ پڑھنے والے کو ثواب ملے گا اور نہ ہی میت کو پہنچے گا، بلکہ پیسے لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ گار ہوں گے۔

اور اگر دنیوی کام کے لیے ہو مثلاً خیر و برکت کے لیے یا مریض کے شفا کے لیے ، یا بلاء مصیبت دور ہونے کے لیے یا مقدمہ جیتنے کے لیے وغیرہ تو قرآنِ مجید ختم کر کے پیسہ لینا جائز ہے۔

کفایت المفتی میں ہے:

"سوال:تراویح میں قرآن شریف سنانےوالےحافظ کو اجرت دینا جائز ہےیا ناجائز؟اگرجائز ہےتو تعین کےساتھ یا بلاتعین؟

جواب:بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدِجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔"

(کتاب الصلاۃ، گیارہواں باب: نمازِ تراویح، 394/3، ط: دار الاشاعت)

مشكاۃ المصابیح میں بروایتِ شعب الایمان ہے:

"عن بريدة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ القرآن ‌يتأكل ‌به ‌الناس جاء يوم القيامة ووجهه عظم ليس عليه لحم» . رواه البيهقي في شعب الإيمان".

(‌‌‌‌‌‌كتاب فضائل القرآن، باب اختلاف القراءات وجمع القرآن، االفصل الثالث، 1/ 680، ط: المكتب الإسلامي)

الدر المختار میں ہے:

"(لا تصح الإجارة لعسب التيس)...(و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه) ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان 

وفي الرد:

"(قوله ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا لقوله - عليه الصلاة والسلام - «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»... وقد اتفقت كلمتهم جميعا على التصريح بأصل المذهب من عدم الجواز، ثم استثنوا بعده ما علمته، فهذا دليل قاطع وبرهان ساطع على أن المفتى به ليس هو جواز الاستئجار على كل طاعة بل على ما ذكروه فقط مما فيه ضرورة ظاهرة تبيح الخروج عن أصل المذهب من طرو المنع... فظهر لك بهذا عدم صحة ما في الجوهرة من قوله واختلفوا في الاستئجار على قراءة القرآن مدة معلومة. قال بعضهم: لا يجوز: وقال بعضهم: يجوز وهو المختار اهـ والصواب أن يقال على تعليم القرآن، فإن الخلاف فيه كما علمت لا في القراءة المجردة فإنه لا ضرورة فيها... وقد أطنب في رده صاحب تبيين المحارم مستندا إلى النقول الصريحة، فمن جملة كلامه قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ ...  وحينئذ فقد ظهر لك بطلان ما أكب عليه أهل العصر من الوصية بالختمات والتهاليل مع قطع النظر عما يحصل فيها من المنكرات التي لا ينكرها إلا من طمست بصيرته".

(‌‌كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب: تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه، 6/ 55، ط: سعيد)

«العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ میں ہے:

"ولا شك أن التلاوة المجردة عن التعليم من أعظم الطاعات التي يطلب بها الثواب فلا يصح الاستئجار عليها؛ لأن الاستئجار بيع المنافع وليس للتالي منفعة سوى الثواب ولا يصح بيع الثواب ولأن الأجرة لا تستحق إلا بعد حصول المنفعة للمستأجر والثواب غير معلوم فمن استأجر رجلا ليختم له ختمة ويهدي ثوابها إلى روحه أو روح أحد من أمواته لم يعلم حصول الثواب له حتى يلزمه دفع الأجرة ولو علم حصوله للتالي لم يصح بيعه بالأجرة فكيف وهو غير معلوم بل الظاهر العلم بعدم حصوله؛ لأن شرط الثواب الإخلاص لله تعالى في العمل والقارئ بالأجرة إنما يقرأ لأجل الدنيا لا لوجه الله تعالى بدليل أنه لو علم أن المستأجر لا يدفع له شيئا لا يقرأ له حرفا واحدا خصوصا من جعل ذلك حرفته ولذا قال تاج الشريعة في شرح الهداية...".

(كتاب الإجارة، 2/ 126، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں