ہم اپنے محلے کی مسجد میں تراویح میں ختم القرآن کے لیے دوسری جگہ کے حفاظ کرام صاحبان کو لے کر آئے ہیں، اب جب کہ ختم القرآن آخری مراحل میں ہے تو ہم سب اہلِ محلے نے اپنی طرف سے اُن حفاظ صاحبان کے چندے کا اہتمام کیا ہے تو آیا یہ چندہ ان کو ادا کرنے سے ہم پر یا ان پر کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟
حفاظِ کرام نے ہم سے ختم القرآن کے لیے کسی قسم کے پیسوں کی کوئی ڈیمانڈ نہیں کی ہے، اور نہ ہی کر رہے ہیں. یہ چندہ محض اپنی خوشی سے دینا چاہ رہے ہیں!
واضح رہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید سناکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا، اس حالت میں بہترہےکہ ﴿اَلَمْ تَرَکَیْفَ﴾ سےتراویح پڑھادی جائے، اس سےبھی تراویح کی سنت ادا ہوجائےگی۔ اسی طرح قرآن مجید سننے پر بھی اجرت کا لینا دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر قاری یا سامع کو بلاتعیین ہدیہ کے طور پر کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پر ان کو کوئی شکایت بھی نہ ہو اور وہاں بطورِ اجرت لینے دینے کا عرف ورواج بھی نہ ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدِجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ حضرات حفاظ کرام کو اپنی خوشی سے پہلے سے طے کیے بغیر کچھ رقم بطور ھدیہ دینا چاہتے ہیں تو ما قبل میں ذکر کردہ شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہے اور اس مقصد کے لیے خاموشی سے پوشیدہ طور پر مخصوص صاحب خیر لوگوں سے چندہ کرنے کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ لوگوں کو چندہ دینے کے لیے مجبور نہ کیا جائے اور چندہ نہ دینے والے کو کسی قسم کی کوئی عار نہ دلائی جائے اور نہ ہی اس سے کوئی تحقیر آمیز رویہ رکھا جائے، بلکہ جو بھی چندہ دے وہ اپنی خوشی سے اپنی سعادت سمجھتے ہوئے اس کام کے لیے چندہ دے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109202812
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن