بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ختم قرآن کے موقع پر اونچی آواز میں لاؤڈ اسپیکر پر نعت خوانی کا حکم


سوال

رمضان کے مہینہ میں بعض لوگ چھت وغیرہ پر ختم قرآن کی محفلوں میں نعت خوانی کرتے ہیں اور اس کے لیے  بڑے بڑے اسپیکر لگائے جاتے ہیں اور اونچی آواز میں اس میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں، رات گئے تک یہ محفل جاری رہتی ہے، جس سے پڑوس کے لوگ اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں، کیا اس قسم کی محفلوں کے منتظمین ایذاءِ  مسلم کے گناہ کے سزاوار ہوں گے ؟اور  کیا انہیں اس قباحت کے ساتھ نعت خوانی پر ثواب ملے گا ؟

جواب

واضح رہے کہ دینی اجتماعات اور مختلف قسم کی ایسی محافل کا انعقاد جن میں حدودِشرع کی رعایت رکھتے ہوئے ترویجِ دین اور اشاعتِ قرآن و سنت کی کوشش ہورہی ہو  فی نفسہ جائزاور باعثِ اجروثواب کا م ہے، لیکن اگر اِن ہی محافل کو محرمات و منکرات کا مجموعہ بنادیا جائے تو یہی محافل  بعض اوقات معاصی کا مجموعہ بن کر بجائے ثواب کے گناہ کاباعث بن جاتی ہیں۔ 

نعت خوانی اور اس کے لیے مجلس منعقد کرنا  باعث ثواب اور بابرکت عمل ہے ،لیکن اِس طرح نعت خوانی کرنا کہ بڑے بڑے اسپیکر لگائے جائیں ، جس سے دیگر  لوگوں کے آرام میں خلل واقع ہو ، بیماروں، معذوروں کو تکلیف ہو جائز نہیں ،یہ ایذا ءِ  مسلم میں داخل ہے ،جس پر احادیث میں  سخت وعیدات وارد ہوئیں ہیں ، فقہاءِ  کرام نے  ایسی بلند آواز سے ذکر یا تلاوتِ  قرآن کریم کو  بھی منع کیا ہےکہ  جس سے کسی کو تکلیف یا تشویش ہو؛  لہٰذا اگر ختم قرآن یا کسی اور موقع پر  لاؤڈ اسپیکر پر اتنی بلند آواز سے نعت خوانی وغیرہ کی جائے کہ اس سے لوگوں کی عبادت یا  کاموں میں خلل واقع ہو  اور  انہیں تکلیف   ہو تو یہ   حکم شریعت کے خلاف ہے ،  اِس سے اجتناب ضروری ہے۔

صحیح مسلم  میں ہے:

65 - (41) حدثنا حسن الحلواني، وعبد بن حميد جميعا عن أبي عاصم، قال: عبد، أنبأنا أبو عاصم، عن ابن جريج، أنه سمع أبا الزبير، يقول: سمعت جابرا، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده»

(صحيح مسلم (1 / 65), کتاب الإیمان ، باب بیان تفاضل الإسلام وأي أمورہ أفضل، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

شامی میں ہے:

" وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفاً وخلفاً على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 660)، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ، مطلب في رفع الصوت بالذکر، ط: سعید)

النہر الفائق میں ہے :

" قال في (الخلاصة): رجل يكتب الفقه وبجنبه رجل يقرأ القرآن فلا يمكنه استماع القرآن فالإثم على القارىء، وعلى هذا لو قرأ على السطح في الليل جهرًا والناس نيام يأثم''۔

(النهر الفائق (1/ 235) کتاب الصلاة، ط: دارالکتب العلمیة)

 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144209201597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں