بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ختم نبوت کے مضامین لکھنے والے کے دل میں یہ خیال آنا کہ علماء دیکھ کر خوش ہوں گے


سوال

ختم نبوت کا کام کرنے  والے اور اس پر مضامین لکھنے والے کے دل میں یہ خیال آئے کہ جب یہ مضامین چھپ کر علماء دین کو بھیجے جائیں گے تو وہ اس سے خوش ہوں گے،  کیا ایسا خیال آنا یا ایسا سوچنا ریا اور دکھاوے میں آنا شمار ہوگا؟ براہ کرم جواب عنایت فرما دیں!

جواب

ریاکاری یا دکھاوا  بنیادی طور پر  غیر اللہ کی رعایت رکھتے ہوئے یا غیر اللہ کو دکھانے کے لیے  کوئی  عمل کرنے کو کہتے ہیں،  اور دکھاوے یا غیر اللہ کی رعایت کا مدار نیت پر ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ "اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے"، چناں چہ اگر کسی شخص کی نیک عمل کی ابتدا یا درمیان میں اللہ کے سوا کسی اور کو خوش کرنے کی  یا اس کو دکھانے کی نیت ہو تو اس عمل کو ریا اور دکھاوا کہا جائے گا، لیکن اگر نیک عمل کرنے والے کی اصل نیت رضائے الہی ہی ہو لیکن دل میں یہ خیال آجائے کہ اس عمل کی وجہ سے کوئی اس پر خوش ہوجائے تو علما نے لکھا ہے کہ ایسا خیال ریا نہیں کہلائے گا، اور نہ ہی ایسے خیالات کی وجہ سے کسی نیک کام کو چھوڑنا دانش مندی ہے، کیوں کہ بسا اوقات یہ انسان کو نیک عمل سے روکنے کے لیے شیطان کی چال ہوتی ہے، لہٰذا ختمِ نبوت کا کام اور اس پر مضامین لکھنے کے  والے شخص کی نیت اگر رضائے الہی کا حصول ہو تو اس کے دل میں یہ خیال آنا کہ یہ مضامین دیکھ کر علما  خوش ہوں گے  ، ریا شمار نہیں ہوگا، اور ایسے خیالات پر توجہ نہ دی جائے۔

"إكمال المعلم بفوائد مسلم لقاضي عياضؒ"میں ہے:

"وقول عمر: " لأن يكون قالها أحب إلى من كذا وكذا ": فيه ما طبع الإنسان عليه محبة الخير لنفسه ولولده، لا سيما هناك وفى العلم، وليظهر للنبى صلى الله عليه وسلم مكانه من الفهم فيزداد منه قربة وحظوة، ولعله يدعو له عند ذلك دعوة ينتفع بها. وقد احتج بهذا الحديث مالك على أن الخواطر وما يقع فى القلب من ‌محبة ‌الثناء ‌على ‌أعمال ‌الخير لا يقدح فيها إذا كان أصلها لله تعالى، أو لا ينفك المرء عنه."

(‌‌كتاب صفة القيامة والجنة والنار، باب مثل المؤمن مثل النخلة، ج:8، ص:348، ط:دار الوفاء، مصر) 

"التعريفات للجرجانيؒ" میں ہے:

"‌الرياء: ترك الإخلاص في العمل بملاحظة غير الله فيه."

(باب الراء، ص:113، ط:دار الكتب العلمية)

"كشاف اصطلاحات الفنون" میں ہے:

"‌الرياء بالكسر والمد هو فعل لا تدخل فيه النية الخالصة ولا يحيط به الإخلاص كذا في خلاصة السلوك.

ويقول في كشف اللغات: ‌الرياء في الأعمال والعبادات الظاهرة والباطنة النظر إلى الخلق (الناس)، بأن يصير الناظر محجوبا عن الحق."

(حرف الراء، ج:1، ص:900، ط:مكتبة لبنان ناشرون)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں