بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ختم نبوت کے منکر کا حکم


سوال

اک شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو،  لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ مانتا ہو،  اس کو ہم دائرۂ  اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔ لیکن اس کے اس عقیدے کی بنیاد پر کیا وہ شخص واجب القتل ہے؟

جواب

جواب سے پہلے دو باتیں بطورِ تمہید سمجھنا ضروری ہے:

(1) اگر کسی شخص کا عقیدہ اِسلامی عقائد کے مطابق ہو تو اُسے کوئی بھی دائرۂ اِسلام سے خارج نہیں کرسکتا، اور جس شخص کا عقیدہ اِسلام کے کسی بھی بنیادی ضروری عقیدے سے متصادم ہو  وہ دائرۂ اِسلام میں داخل ہی نہیں ہوتا، خواہ وہ خود کو مسلمان کہے، اور اگر اس کا عقیدہ پہلے صحیح تھا پھر تبدیل ہوکر فاسد ہوگیا تو وہ اَز خود دائرۂ اِسلام سے خارج ہوجاتا ہے؛ اور عقیدۂ ختمِ نبوت بھی اِسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، کئی آیاتِ مبارکہ اور سینکڑوں احادیث شریفہ سے یہ عقیدہ ثابت ہے، اور اس کے منکر کا دائرۂ اسلام سے خارج ہونا بھی نصوص سے ثابت ہے؛ لہٰذا جو شخص نبی کریم ﷺ کو آخری نبی نہ مانتا ہو وہ رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین پر ایمان رکھنے والا نہیں ہے، اور ایسا  شخص اگر شروع سے یہ عقیدہ رکھتا ہو تو وہ دائرۂ اِسلام میں داخل ہی نہیں ہوا، اور اگر بعد میں اس کا عقیدہ فاسد ہوگیا تو وہ اَز خود دائرۂ اِسلام سے خارج ہوجائے گا۔

(2) جرائم کی شرعی سزاؤں کے اِجرا کی ذمہ داری مسلمانوں کی حکومت کی ہے، ہر کس و ناکس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اَز خود کسی کو مجرم قرار دے کر سزا جاری کردے۔

اس تمہید کے بعد مذکورہ سوال کا جواب ملاحظہ کیجیے:

جو مسلمان، آپ ﷺ کی ختم نبوت کا منکر ہوجائے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوکر مرتد ہوجاتا ہے، اور   اگر اسلامی مملکت کا کوئی شہری (العیاذ باللہ) مرتد ہوجائے تو اس کے اَحکام دیگر کفار سے جدا ہیں، مثلاً:

اگر مرتد ہونے والی بالغہ خاتون ہو تو اس کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جائے، اگر اس کے کوئی شبہات ہوں تو دور  کیے جائیں،  اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے،  اگر توبہ کرلے تو  ٹھیک،  ورنہ اسے زندگی بھر کے  لیے جیل میں قید رکھا جائے؛  یہاں تک کہ  وہ توبہ کرلے یا مرجائے۔

اگر کوئی عاقل،  بالغ مرد،  ارتداد کا ارتکاب کرے تو اس کو گرفتار کرکے تین دن تک اس کو مہلت دی جائے گی،  اس کے شبہات دور  کیے جائیں گے،  اگر مسلمان ہوجائے تو  ٹھیک،  ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔

مذکورہ جرم کے پائے جانے اور اقرار یا شرعی گواہوں کی گواہی سے یہ  ثابت ہو جانے کی صورت میں مسلمانوں کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس سزا کا اطلاق کرے،  اور توہینِ رسالت سمیت تمام شرعی حدود کے نفاذ اور  سزاوٴں کا اِجرا  مسلمانوں کی حکومت کا کام ہے،  ہرکس و ناکس اس طرح کی سزا جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ عوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ہمارے معاشرے میں کوئی ایسا مجرم پایا جاتاہے تو شریعت اور قانون کے تقاضے پورے کرے، اور ایسے مجرم کے خلاف پر امن قانونی چارہ جوئی کرکے اسے کیفرِ کردار تک پہنچائے۔

   بدائع الصنائع میں ہے:

وأما حكم الردة فنقول - وبالله تعالى التوفيق: إن للردة أحكاما كثيرة بعضها يرجع إلى نفس المرتد، وبعضها يرجع إلى ملكه، وبعضها يرجع إلى تصرفاته، وبعضها يرجع إلى ولده أما الذي يرجع إلى نفسه فأنواع: منها إباحة دمه إذا كان رجلا، حرا كان أو عبدا؛ لسقوط عصمته بالردة قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من بدل دينه فاقتلوه» وكذا العرب لما ارتدت بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم أجمعت الصحابة - رضي الله عنهم - على قتلهم، ومنها أنه يستحب أن يستتاب ويعرض عليه الإسلام لاحتمال أن يسلم، لكن لا يجب؛ لأن الدعوة قد بلغته فإن أسلم فمرحبا وأهلا بالإسلام، وإن أبى نظر الإمام في ذلك فإن طمع في توبته، أو سأل هو التأجيل، أجله ثلاثة أيام وإن لم يطمع في توبته ولم يسأل هو التأجيل، قتله من ساعته."

(7 / 134، فصل فی بیان احکام المرتدین،  کتاب السیر، ط؛ سعید)

وفیہ ایضا:

"و أما المرأة فلايباح دمها إذا ارتدت، و لاتقتل عندنا، و لكنها تجبر على الإسلام، وإجبارها على الإسلام أن تحبس وتخرج في كل يوم فتستتاب ويعرض عليها الإسلام، فإن أسلمت وإلا حبست ثانيا، هكذا إلى أن تسلم أو تموت."

(7 / 135، فصل فی بیان احکام المرتدین،  کتاب السیر، ط؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202188

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں