مسلکِ دیوبند سے تعلق رکھنے والے اہلِ تصوف جو ختم خواجگان اور ذکر کی مجالس کرواتے ہیں شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟ نیز ان مجالس میں شرکت کے لیے دعوت دینا یا اعلان کرنا کیسا ہے؟ جب کہ بعض حضرات اس تداعی کو درست نہیں سمجھ رہے۔
واضح رہے کہ پاک و ہند میں ختمِ خواجگان مختلف قسم کے رائج ہیں، جن میں سے بعض میں شرکیہ دعاؤں کی آمیزش بھی موجود ہے؛ لہٰذا اگر ختمِ خواجگان میں شرعی اعتبار سے کسی قابلِ اعتراض ورد و ذکر کی آمیزش نہ ہو، محض اللہ تعالی کے ذکر اور خدا تعالی سے دعا وغیرہ پر مشتمل اَوراد ہوں، تو ان کو پڑھ کر خدا تعالی سے اپنی دنیوی حوائج کی برآری کا سوال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔البتہ چوں کہ تصوف کے مختلف سلسلوں میں ختمِ خواجگان کے پڑھنے کے مختلف طریقے اَکابرین نے ذکر کیے ہیں، اور ان میں سے کوئی طریقہ بعینہ نصوص سے منقول نہیں ہے؛ لہٰذا اس عمل کو ایک مباح عمل کے درجہ پہ رکھتے ہوئے اس کی تداعی نہ کی جائے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200082
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن