بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خط کے ذریعہ نکاح کا حکم


سوال

 ایک بندے نے اپنی کسی رشتے دار کو خط میں یہ الفاظ لکھ کے دئیے (میں فلاں بن فلاں، آپ یعنی فلاں بنت فلاں سے نکاح کرنا چاہتا ہوں کیا آپ  کو قبول ہے؟) اور کہا کہ اپنی فلاں بہن کو میرا خط دے دینا۔ اس لڑکی نے اپنی بہن کو یہی خط پہنچا دیا اور اس کی بہن نے انہیں الفاظ کے نیچے لکھ دیا قبول ہے قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ خط اگر ایک مرد اور دوعورتوں کو دکھایا جائے اور وہ(لڑکی سے پوچھ گچھ کرکے) گواہ بن جائیں تو کیا نکاح منعقد ہوگا کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نکاح کی مجلس میں گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کا ہونا ضروری ہے،لہذا اگر نکاح میں ایجاب تحریری ہو تو قبول گواہوں کی موجودگی میں ضروری ہے،جب کہ صورت ِمسئولہ میں لڑکی نے گواہوں کے بغیر ہی قبول کیا  ہے اس لئے یہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"قال عامة العلماء: إن الشهادة شرط جواز النكاح»ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم  أنه قال «لا نكاح إلا بشهود» وروي «لا نكاح إلا بشاهدين» وعن عبد الله بن عباس  رضي الله عنهما  عن رسول الله  صلى الله عليه وسلم  أنه قال: «الزانية التي تنكح نفسها بغير بينة» ولو لم تكن الشهادة شرطا لم تكن زانية بدونها ولأن الحاجة مست إلى دفع تهمة الزنا عنها ولا تندفع إلا بالشهود."

(کتاب النکاح  فصل  الشھادۃ فی النکاح :252/2:  ط دارالکتب العلمیۃ)

حاشية ابن عابدين  میں ہے:

"نعقد النكاح بالكتاب كما ينعقد بالخطاب. وصورته: أن يكتب إليها يخطبها فإذا بلغها الكتاب أحضرت الشهود وقرأته عليهم وقالت زوجت نفسي منه أو تقول إن فلانا كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني زوجت نفسي منه، أما لو لم تقل بحضرتهم سوى زوجت نفسي من فلان لا ينعقد؛ لأن سماع الشطرين شرط صحة النكاح، وبإسماعهم الكتاب أو التعبير عنه منها قد سمعوا الشطرين بخلاف ما إذا انتفيا."

(کتاب النکاح :12/3: ط ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں