1 : ہم نے رہنے کے لیے مکان خریدا ہے، جس کا قبضہ ہمیں مل چکا ہے مکان کی بقایا رقم جولائی میں ادا کرنی ہے، کیا بقایا رقم پر زکٰوۃ ادا کرنی پڑے گی؟ (ہمارا سالانہ زکٰوۃ کا حساب 30 شعبان کو مکمل ہوگا)۔
2 : ہم جس مکان میں رہ رہے، وہ مکان فروخت کرکے رہنے کے لیے دوسرا پلاٹ خریدیں گے، جس پر ہم بعد میں مکان بنا ئیں گے ، کیا موجودہ مکان کی مالیت پر بھی زکٰوۃ ادا کرنی ہوگی؟
1: بصورتِ مسئولہ خریدے گئے مکان کی باقی ماندہ رقم چوں کہ قرض ہے، اور مقروض پر قرض کے بقدر رقم پر زکات نہیں ہے، لہذا مذکورہ باقی ماندہ رقم پر زکات نہیں ہوگی۔
2: موجودہ رہائشی مکان جب تک فروخت نہیں ہوجاتا، تب تک اس کی مالیت پر زکات واجب نہیں ہوگی، کیوں کہ استعمال کی چیز کے بارے میں صرف بیچنے کی نیت سے وہ مالِ تجارت نہیں بنتا۔ ہاں جب مکان فروخت کردیا جائے گا، اس وقت اگر زکات کا سال مکمل ہونے پر اس کی رقم محفوظ ہوئی تو اس پر حسبِ شرائطِ زکات، زکات واجب ہوگی۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:
"(فارغ) صفة نصاب (عن الدين) والمراد دين له مطالب من جهة العباد سواء كان الدين لهم أو لله تعالى وسواء كانت المطالبة بالفعل أو بعد زمان فينتظم الدين المؤجل."
(كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ج:1، ص:193، ط:داراحياء التراث العربى)
فتاوہ ہندیہ میں ہے:
"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين. و تعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."
(كتاب الزكوة، الباب الثالث فى زكوة الذهب، الفصل فى العروض، ج:1، ص:179، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144208200457
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن