میں موبائل لیتا، اور بیچتا ہوں،لیکن ہماری عوام کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی پر جلدی بھروسہ نہیں کرتے مثلا میں ایک موبائل لیتا ہوں 10 ہزار کا اور اب اگر میں سامنے والے کو یہ کہوں کہ بھائی یہ مجھے10 کا پڑا ہے ، اور آپ کو میں 11 میں دے رہا ہوں، تو وہ یقین ہی نہیں کرتے، اور 11 سے بھی 10 کرواتے ہیں، اور اگر یہ کہا جائے کہ بھائی یہ 12 کا ہے آپ کو 13 میں دے رہا ہوں، تو وہ 12 میں لے ہی لیتے ہیں، تو اب 10 کی چیز کو یوں کہنا کہ مجھے 12 میں پڑی ہے،آپ کو 13 میں دے رہا ہوں ،پھر 11، 12 میں سیل کر دینا،کیا یہ جائز ہے ؟یا 10 کی خرید کر اگر یہ کہوں کہ بھائی یہ12 کی ہے، آپ کو 13 میں دے رہا ہوں،پھر 12 میں ہی دے دوں،کیوں کہ اب تو وہ میری چیز ہے تو میں نے اس کے ریٹ 12 رکھے ہیں،تو 10 کی خریدنے کے بعد یہ کہنا کہ یہ 12 کی ہے ، کیا یہ جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں جب سائل موبائل کو 10 ہزار کا خرید لے تو یہ اس کی ملکیت ہے،اور آگے مناسب ریٹ پرجتنے میں چاہے بیچ دے،لیکن 10 ہزار میں موبائل خریدکر آگے دوسرے خریدا رکو یہ بتانا کہ مجھے 12 یا 13ہزار کی پڑی ہے اور پھر 11،12 یا 13ہزار میں بیچنا،جائز نہیں،کیوں کہ یہ جھوٹ اور دھوکہ دہی ہے،لہذا سائل کو اس طرح کا جملہ نہیں کہنا چاہیے کہ مجھے موبائل اتنے میں پڑا ہے،بلکہ خریدا کے ساتھ بھاؤ تاؤ کرے ،اور جتنے پر دونوں راضی ہوجائیں بیچ دے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويقول قام علي بكذا ولا يقول اشتريته) لأنه كذب وكذا إذا قوم الموروث ونحوه أو باع برقمه لو صادقا في الرقم فتح."
(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، ج:5 ص:136 ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505100872
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن