بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدے ہوئے فلیٹ پر زکوۃ کا حکم


سوال

میں فلیٹ کی خرید و فروخت کا کام کرتی ہوں ۔ میں نے پوچھنا یہ ہے کہ اگر میں کوئی پلاٹ فروخت کردوں تو اس سے حاصل ہونے والی جو رقم ہے اس کی کل رقم کی مجھ پر زکوۃ ادا کرنی ہوگی یا جتنا نفع ہوا ہے صرف اسی  نفع والی رقم کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی یا جتنی رقم میں نے اس کے خریدنے میں لگائی تھی صرف اسی کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی؟

نیز جو پلاٹ میں لیتی ہوں تو اس میں صرف میری امی رہائش پذیر ہوتی ہے کچھ وقت ، پھر اسےآگے بیچ دیتی ہوں تو کیا ایسی صورت میں بھی اس کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی؟

وضاحت:اب تک دو فلیٹ بیچے ہیں، پہلا فلیٹ میں سال تک اس مین والدہ رہیں پھر بیچ دیا اور دوسرے میں ڈیڑھ سال  رہیں پھر  میں نے بیچ دیا اور تیسرے میں دو مہینے رہ رہی ہیں۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں تجارت کی نیت سے لیا گیا پلاٹ کو فروخت کرنےکے بعد کل رقم سے زکوٰۃ نکالنا لازم ہے، صرف نفع یا قیمت خرید سے نکالنا کافی نہیں ہے۔

پلاٹ لیتے وقت چوں کہ تجارت کی نیت ہے لہذا عارضی طور پر والدہ کے رہنے سے وہ پلاٹ مال تجارت سے نہیں نکلےگا، سالانہ زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"(ومنها كون النصاب ناميا) حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه وينقسم كل واحد منهما إلى قسمين خلقي، وفعلي هكذا في التبيين فالخلقي الذهب والفضة؛ لأنهما لا يصلحان للانتفاع بأعيانهما في دفع الحوائج الأصلية فتجب الزكاة فيهما نوى التجارة أو لم ينو أصلا أو نوى النفقة والفعلي ما سواهما ويكون الاستنماء فيه بنية التجارة أو الإسامة، ونية التجارة والإسامة لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة أو الإسامة ثم نية التجارة قد تكون صريحا وقد تكون دلالة فالصريح أن ينوي عند عقد التجارة أن يكون المملوك للتجارة سواء كان ذلك العقد شراء أو إجارة وسواء كان ذلك الثمن من النقود أو العروض."

(کتاب الزکوۃ، باب اول ج نمرب ۱ ص نمبر ۱۷۴، دار الفکر)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة كذا في الهداية. ولو استبدل مال التجارة أو النقدين بجنسها أو بغير جنسها لا ينقطع حكم الحول، ولو استبدل السائمة بجنسها أو بغير جنسها ينقطع حكم الحول كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الزکوۃ، باب اول ج نمرب ۱ ص نمبر ۱۷۵، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات."

(کتاب الزکوۃ، باب ثالث ج نمبر ۱ ص نمبر ۱۷۹، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں