میں نے ایک دکان مارچ 2012 میں کرائے پر لی تھی اور تقریباً 12 سال تک کرائے پر چلاتا رہا۔ پھر 7 اکتوبر 2024 کو میں نے وہی دکان خرید لی، جس کی قیمت 3 کروڑ 30 لاکھ طے ہوئی۔ میں نے 15 اکتوبر 2024 تک 30 لاکھ روپے ادا کر دیے، اور باقی رقم کی ادائیگی کی مدت چھ ماہ (یعنی 7 اپریل 2025) مقرر ہوئی۔ ادائیگی میں تاخیر ہوئی، اور آخرکار میں نے بقیہ تین کروڑ روپے یکم مئی 2025 کو ادا کیے۔اس دوران (یعنی اکتوبر 2024 سے اپریل 2025 تک) سابق مالک نے مجھ سے چھ ماہ کا کرایہ بھی وصول کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ جب دکان میں خرید چکا تھا، تو کیا اکتوبر سے اپریل تک کا کرایہ لینا سابقہ مالک کے لیے شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے مذکورہ دکان سابقہ مالک سے خرید لی تو خریداری کا معاہدہ ہوتے ہی آپ اس دکان کے مالک بن گئے۔ ایسی صورت میں سابق مالک کے لیے شرعاً یہ جائز نہیں ہے کہ وہ دکان بیچنے کے بعد بھی کرایہ وصول کرے۔ جو رقم کرایہ کی مد میں لی ہےاس کا واپس کرنا شرعالازم ہے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا وإن كان موقوفا فثبوت الملك فيهما عند الإجازة كذا في محيط السرخسي."
(کتاب البیوع، الباب الأول، ج: ٣، ص: ٣، ط: رشيدية)
دررالاحکام میں ہے :
"ولو ملك المستأجر عين المأجور بإرث، أو هبة يزول حكم الإجارة تنفسخ الإجارة على صور سبع: ١ - لو ملك المستأجر أثناء مدة الإجارة كل المأجور، أو بعضه بإرث، أو هبة صحيحة، أو شراء صحيح، أو فاسد وقبض يزول حكم الإجارة عن المقدار الذي يملكه؛ إذ لا تلزمه الأجرة في مقابلة انتفاعه بما هو مملوك له. مثلا: إذا اشترى المستأجر أثناء مدة الإجارة المأجور فقد سقطت عنه الأجرة كذلك إذا ملك بعضه؛ فلا يبقى حكم الإجارة على ذلك البعض."
(الکتاب الثاني الإجارة، الباب الثاني، الفصل الأول، المادة: ٤٤٢، ج: ١، ص: ٤٨٦، ط: دار الجيل)
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے :
"وإذا ملك المستأجر العين بميراث أو هبة أو نحو ذلك بطلت الإجارة."
(كتاب الإجارة، الفصل التاسع عشر، ج: ١٥، ص: ١٧٩، رقم المسألة: ٢٢٦٦٣، ط: مكتبة فاروقية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101079
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن