بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدار کے پیسے دینے میں تاخیر کرنے سے بیع فسخ نہیں ہوتی


سوال

میں نے 10سال پہلے زید سے ایک مکان خریداتھا، جس میں ایک دکان بھی ہے،سوداتو ہوگیاتھا، لیکن پیسےنہیں دیےتھے؛ کیوں کہ میرےپاس اس وقت پیسےنہیں تھے،دکان کاکرایہ میں وصول کرتارہا، مکان خریدنے کے تقریباً 2 سال بعد میرے پاس کچھ پیسےآگئے،میں  نے زید  سے کہا کہ یہ کچھ رقم ابھی لےلو،آہستہ آہستہ باقی رقم بھی اداکردوں کا،لیکن  زید نےکہا: مجھےتھوڑےتھوڑےنہیں چاہیے،جب پورےپیسےآپ کےپاس آئیں گےتب دینا،وقت گزرتارہا اور میں کرایہ وصول کرتارہا،ساتھ ساتھ میں نےاس مکان میں کچھ مرمت کاکام بھی کیا،خریداری کےگیارہ سال  بعد زید کہتاہےکہ چوں کہ آپ نےرقم ادانہیں کی ہے،لہذامیں اس مکان کونہیں بیچوں گا، یعنی جوسوداہوتھاوہ ختم  کر رہا ہوں، اب حل طلب بات یہ ہےکہ  کیا زید سوداختم کرسکتاہے؟ 

وضاحت: کیا   زید نے مکان بیچتے وقت یہ شرط لگائی تھی کہ اگر کوئی متعین وقت میں رقم نہ دی تو معاملہ ختم؟

جواب: نہیں ایسی کوئی شرط نہیں لگائی تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل  نے زید سےمذکورہ مکان کی خریداری کامعاملہ  کرلیا تھا تو مکان میں سائل کی ملکیت ثابت ہوگئی تھی ،اگرچہ اس نے پیسےدینے  میں تاخیرکی ہے،اب  زید کےلیےجائزنہیں کہ سائل کی رضامندی کےبغیریہ معاملہ ختم کرکےمکان واپس لےلیں ،البتہ اگرفریقین  اس خریدوفروخت کےمعاملہ کوباہمی  رضامندی سےختم کرناچاہیں تو کرسکتے ہیں۔

العناية شرح الہدایۃ میں ہے:

"(البيع ينعقد بالإيجاب والقبول) الانعقاد هاهنا تعلق كلام أحدالعاقدين بالآخر شرعا على وجه يظهر أثره في المحل. والإيجاب الإثبات. ويسمى ما تقدم من كلام العاقدين إيجابًا لأنه يثبت للآخر خيار القبول، فإذا قبل يسمى كلامه قبولًا."

(كتاب البيوع، ج:6،ص:248، ط: دار الفكر بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"والكلام في الإقالة في مواضع، في بيان ركن الإقالة...(أما) ركنهافهو الإيجاب من أحد العاقدين والقبول من الآخر، فإذا وجدالإيجاب من أحدها والقبول من الآخر بلفظ يدل عليه فقدالركن، لكن الكلام في صيغة اللفظ الذي ينعقد به الركن فنقول: لاخلاف أنه ينعقد بلفظين يعبر بها عن الماضي بأن يقول أحدها:أقلت ، والآخر : قبلت أو رضيت أو هويت ونحو ذلك"

(كتاب البيوع، فصل في بيان ما يرفع حكم البيع،ج:5، ص:306،ط: دار الكتب العلمية )

العنایہ میں ہے:

"وإذا حصل ‌الإيجاب ‌والقبول ‌لزم البيع ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية ...... ولنا أن في الفسخ إبطال حق الآخر) وهو لا يجوز."

(كتاب البيوع،ج:6،ص:257،ط:دارالفكر لبنان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں