میں کپڑوں کا کام کرتا ہوں، مارکیٹ سے 300 روپے فی میٹر کے حساب سے لاتا ہوں اور بازار میں 300 روپے فی گز کے حساب سے کسٹمر کو بتا کے بیچتا ہوں، کیوں کہ 300 روپے فی میٹر کے حساب سے بازار میں کپڑے نہیں بکتا، اس لیے میں گز کے حساب سے بیچ رہا ہوں، اور جو باقی دومیٹر کپڑا جو بچ رہا ہوتا ہےوہ میرا پرافٹ ہے، کیا میرا یہ عمل شرعی طور پر درست ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں سائل جب خریدار کو فی گز کپڑا 300 روپے کے حساب سے بتا کر فروخت کررہاہے، جس پر خریدار اپنی رضامندی سے گز کے حساب سے خریدتا ہے تو یہ معاملہ شرعی طور پر بالکل درست ہوگا، خواہ اس طرح کا کپڑا بازار میں عموماً میٹر کے حساب سے فروخت ہوتا ہو یا گز کے حساب سے، کیوں کہ جب خریدار کو اس بات کا علم ہے کہ بائع کپڑا گز کے حساب سے فروخت کررہا ہے نہ کہ میٹر کے حساب سے، اور وہ اپنی رضامندی سے خرید بھی رہاہے تو اس معاملہ میں کسی قسم کی خیانت یا دھوکہ دہی بھی نہیں رہےگی، لہٰذا یہ معاملہ جائز ہوگا، اور اس عمل سے سائل کو باقی ماندہ جو بطورِ نفع (پرافٹ) کے بچ رہاہے وہ اس کےلیے حلال ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) الذرعيات: فإن لم يسم جملة الذرعان بأن قال بعت منك هذا الثوب أو هذه الأرض أو هذه الخشبة كل ذراع منها بدرهم فالبيع فاسد في الكل عند أبي حنيفة رحمه الله إلا إذا علم المشتري جملة الذرعان في المجلس فله الخيار إن شاء أخذ وإن شاء ترك، وإن لم يعلم حتى إذا تفرقا تقرر الفساد، وعند أبي يوسف ومحمد يجوز البيع في الكل ويلزمه كل ذراع منه بدرهم، وعلى هذا الخلاف إذا قال: كل ذراعين بدرهمين أو كل ثلاثة أذرع بثلاثة دراهم."
كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع، ج:5، ص:159، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512101833
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن