بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدار کا قبضہ سے پہلے ادھار نفع پر چیز کو فروخت کرنا


سوال

سائل  کے زید کے پاس بیس  لاکھ روپے پڑے  ہیں ،زید پٹرول کا کاروبار کرتا ہے، زید سائل کی اجازت سے چالیس لاکھ روپے  کا ایک ٹینک پٹرول خریدتا ہے اور  پھر سائل  کو قبضہ  دیے بغیر زید سائل کے حصے کا پٹرول دو لاکھ منافع  چھ  مہینوں کے لیے ادھار خرید لیتا ہے،  سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید کے لیے سائل کی اجازت  سے  سائل کے لیے چالیس لاکھ روپے  کا ایک ٹینک پٹرول   خریدنا اور  پھر سائل  کو قبضہ دیے بغیر زید کا سائل کا پٹرول دو لاکھ منافع  پر چھ مہینوں کے لیے ادھار پر خریدنا شرعًا ناجائز ہے، کیوں کہ اس صورت میں سائل اپنے حصے کا پٹرول اپنے قبضے میں لانے سے پہلے ہی زید کو ادھار نفع کے ساتھ بیچ دیتا ہے جو بیع قبل القبض (یعنی کسی چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے فروخت کرنا) میں داخل ہے اور بیع قبل القبض شرعاً ناجائز ہے، نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے،  البتہ اگر  زید مذکورہ ٹینک سائل کے لیے  خرید کر پہلے  اسے قبضہ دے، خواہ بذاتِ خود قبضہ کرے یا اس کا وکیل (جوکہ گاہک زید کے علاوہ ہو)، پھر اس کے بعد سائل وہ چیز آگےزید کو یا کسی اور کو بیچ دے تو یہ صورت شرعاً جائز ہوگی (بشرط یہ کہ کوئی دوسری ایسی چیز نہ پائی جائے جس سے معاملہ ناجائز ہوجائے)۔

اور اگر اس کے علاوہ کوئی معاملہ ہو تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال ارسال کردیجیے۔

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله : و من اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض۔۔۔أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه  ورواه أحمد في مسنده وابن حبان."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، ص:511، ج:6، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں