بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدار سے گاڑی چھینی گئی تو وہ اپنا حق کس سے مانگے؟


سوال

دو آدمیوں کا آپس میں کوئی معاملہ تھا،ایک کے پاس اپنی ذاتی گاڑی تھی، اس نے دوسرے کا  کوئی نقصان کروایا تھا، اس نے اپنی گاڑی کسی کو فروخت کرنا چاہی،دوسرے آدمی(جس کا نقصان کیا تھا)خریدار کو منع کیا کہ اس بندے کے ساتھ میرا معاملہ ہے اورمیں یہ گاڑی  اس سے لوں گا،تم نہ خریدو،لیکن خریدار نے وہ گاڑی اس سے خرید لی ،پھردوسرے آدمی نے جس کا مالک سے معاملہ تھا،خریدار سے وہ گاڑی چھین لی۔

سوال یہ ہے کہ کیاخریدار سے گاڑی کا چھیننا اس کے لیے جائز ہے؟جس سے گاڑی خریدی ہے وہ بھی خریدار کو کچھ نہیں دے رہااور جس نے چھینی ہے وہ بھی واپس نہیں کر رہا،ایسی صورت میں خریدار اپنا حق کس سے مانگے؟مجرم گاڑی ہوتی ہے یاشخص؟کیا خریدار عدالتی کاروائی کرسکتا ہے؟

جواب

صورت ِمسئولہ    میں جس شخص کا گاڑی فروخت کرنے کے والے کے ساتھ کوئی ذاتی نوعیت کامعاملہ ہے،اس کے لیے شرعاً جائز نہیں تھا کہ وہ گاڑی خریدنے والے سے  گاڑی چھینے،لہذا اس کے ذمے شرعا لازم ہے کہ وہ گاڑی خریدنے والے کو گاڑی واپس کرے،اگر وہ واپس نہیں کررہا تو خریدار کو اس کےخلاف عدالتی کاروائی کرنے کا حق   حاصل ہے،اسے بیچنے والے سے مطالبے کاحق نہیں، کیوں کہ   یہ گاڑی بیچنے والے کی ملکیت تھی، جس شخص کا بیچنے والے سے معاملہ تھا اس کا حق اس گاڑی میں نہیں تھا، لہذا اس کا بیچنا درست تھا، گاڑی چھیننے والے کو اپنا معاملہ کسی دوسرے طریقے سے حل کرنا چاہیے تھا۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

 و أما حكمه فالإثم و المغرم عند العلم و إن كان بدون العلم بأن ظن أن المأخوذ ماله أو اشترى عينا ثم ظهر استحقاقه فالمغرم و يجب على الغاصب رد عينه على المالك و إن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليا كالمكيل والموزون

(کتاب الغصب ،الباب الاول فی تفسیر الغصب وشرطہ وحکمہ ،ج119/5 ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں