بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خرید و فروخت کے چند بنیادی احکام


سوال

میرے کاروبار کی نوعیت یہ ہے کہ میں مشینوں کا کام کرتا ہوں،  لوگوں سے آرڈر لیتا ہوں اور ان کو چائنہ  سے مشین منگوا کردو سے ڈھائی سال کے  ادھار پر فروخت  کرتا ہوں، میں ان سے آرڈر لے لیتا ہوں اور ان کو ایک ریٹ بتا دیتا ہوں اور ان کو اندازاً ایک ڈلیوری کا وقت بتا دیتا ہوں کہ اتنے دن میں آپ کویہ مشین منگوا کر دے دوں گا ، آرڈر فائنل ہونے کے بعد ،میں چائنہ میں آرڈر کرتا ہوں اور وہاں سے منگوا کر یہاں خریدار کو دے دیتا ہوں۔

ڈالر کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیش ِنظر میں قیمت ڈالر میں بتاتا ہوں اور جس دن ان کو ڈلیوری دیتا ہوں ،  اس دن کے ڈالر ریٹ مع ۵ فیصد اضافہ ان کی ڈالر کی قیمت کو پاکستانی کرنسی میں طے کر دیتا ہوں اور اب خریدار پاکستانی کرنسی میں ہی ادائیگی کرے گا ، مثلاً :  میں نے مشین کی قیمت100ڈالر بتا کر آرڈر لے لیا، جس دن ڈلیوری دی  ، اس دن ڈالر کی قیمت150 روپے تھی تو اس دن ڈالر کی قیمت میں ۵ فیصد اضافہ کرکے یعنی157.5ڈالر ریٹ سے100ڈالر کی قیمت لگائی جو  بنی15750روپے  ، وہ میں نے خریدار سے طے کر لی۔ اب  وہ  15750روپے ادا کرنے کا پابند ہوگا۔

 مندرجہ ذیل امور پر میری رہنمائی فرمائیں:

1۔ کیا  میرا اس طرح ڈالر متعین کرکے اس  کے مطابق مشین کو بیچنا اور پھر ڈلیوری کے دن کے ڈالر ریٹ مع  ۵ فیصد اضافہ کے اس کو پاکستانی کرنسی میں حساب لگانا جائز ہے ،  جبکہ دونوں فریق اس پر راضی ہیں۔

2۔سوال کے ساتھ جو معاہدہ منسلک ہے اس کی شق نمبر ۳ یعنی" اگر گورنمنٹ ڈیوٹی یا دیگر اخراجات بدل جاتے ہیں جو اس مشین کے امپورٹ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں تو ریٹ بدل دیا جائے گا" کیا یہ شق درست ہے؟

3۔شق نمبر ۴ یعنی " بکنگ کینسل کرنے کی صورت میں ۵ فیصد کی کٹوتی ہوگی" یہ شق ڈرانے کے لیے لکھی گئی ہے ، اس پر عمل نہیں کیا جاتا ،ہمیشہ خریدار کو بکنگ کینسل کرنے کی صورت میں پوری رقم واپس کی جاتی ہے۔ کیا صرف ڈرانے کے لیے لکھنا درست ہے؟

4۔شق نمبر ۶ میں مذکور ہے کہ جس دن ڈلیوری کا وعدہ کیا گیا اس دن سے ۲۰ دن  کے اندر اندر ڈلیوری ہوگئی تو ڈالر کے ریٹ کا ضابطہ یہ ہوگا کہ موجودہ ریٹ مع ۵ فیصد اضافہ جیسے نمبر۱  میں گزرچکا لیکن اگر ۲۰ دن سے زیادہ تاخیر ہوگئی تو بیسویں دن جو ریٹ ڈالر کا تھا اسی دن کے ریٹ مع ۵ فیصد اضافہ کا اعتبار ہوگا اور اب ڈلیوری  کے دن کے ریٹ کا اعتبار نہیں ہوگا۔ کیا اس طرح کرنا درست ہے؟

5۔شق نمبر ۷ میں مذکور ہے کہ اگر خریدار نے مشین قبول کرنے میں تاخیر کی تو پھر جو اس مشین کو سنبھالنے کے گودام کے اخراجات ہوں گے ،  یا پورٹ پر جو ڈیمرج (demurrage)لگے گا،  یا ڈالر کا ریٹ بدل جائے گا اور اس بدلنے سے جو پاکستانی کرنسی کی قیمت میں اضافہ ہوجائے گا اس سب کا ذمہ دار خریدار ہوگا۔ اس کا کیا حکم ہے؟

6۔شق نمبر ۸ میں مذکور ہےکہ پورٹ سے مشین نکلنے کے بعد ٹرانسپوڑٹ میں جو نقصان مشین کو ہوگا یا خریدار کی جگہ پر مشین اترنے کے بعد مشین کے  چلنے کے دوران کوئی نقصان ہوگا اس کاذمہ دار خریدار ہوگا۔ کیا یہ شرط جائز ہے؟

7۔شق نمبر ۳اگر قسط وقت پر ادا نہیں کی تو بیچنے والے کو مشین پاسورڈ کے ذریعہ لاک کرنے کا اختیار ہوگا۔ کیا اس طرح کرنا درست ہے؟

8۔شق نمبر ۱۴ :مکمل ادائیگی سے پہلے خریدار بیچنے والے کی اجازت کے بغیر  اپنی فیکٹری سے کہیں اور مشین منتقل نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ کسی اور خریدار کو بیچ سکتا ہے۔کیا یہ درست ہے؟

9۔شق نمبر ۱۵ :اگر خریدار رقم ادا ہی نہیں کرسکا تو بیچنے والا خود مشین کو بیچ دے گا ۔اس شق کا حکم؟

10۔   شق نمبر ۱۱: اگرخریدار نے ڈلیوری  سے پہلے  ڈاون پیمنٹ (ابتدائی ادائیگی) پوری  نہیں کی تو آرڈر بیچنے والے کو اختیار ہے کہ اس کی ڈلیوری  میں تاخیر کر دے یا سودا کینسل کردے۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی  منقولی چیز کو قبضہ میں آنے سے پہلے کسی اور کو فروخت کرنا شرعاً  جائز نہیں ہے ؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں جب تک مشین سائل کے قبضہ میں نہیں آئے گی ، اس وقت تک سائل کے لیے خریدار کو فروخت کرناجائز نہیں ہوگا ، البتہ سائل (بائع) خریدار کے ساتھ وعدہ بیع کر لے ، پھر  جب وہ مشین پہنچ جائے تو اس وقت خریدار سے قیمت طے کرکے اسے فروخت کردے۔

 صورتِ مسئولہ میں ذکرکردہ جزئیات کے جوابات درج ذیل ہیں :

1۔مشین وغیرہ کے فروختگی کے وقت قیمت میں  ڈالر متعین کرکے  اس کو  فروخت کرنا جائز ہے ، پھر خریدار اگر ڈالر کی صورت میں  قیمت ادا کرے تو اتنے  ہی ڈالر ادا کرنے ہو ں گے ، جتنے عقد کے وقت طے ہوئے  اور اگر خریدا رڈالر کا ریٹ پاکستانی کرنسی میں ادا کرنا چاہیے اور فروخت کنندہ بھی اس پر راضی ہو تو ادائیگی کے دن ڈالر کا مارکیٹ میں  جو ریٹ ہوگا، اس کے اعتبار سے مقررہ ڈالروں کی قیمت ادا کرنی  ہوگی۔لیکن   پانچ فیصد   اضافہ  لینا بہر حال نا جائز اور حرام   ہے ۔

2۔یہ شق درست نہیں ۔

3۔ڈرا نے کے لیے بھی ایسے شرط کے  لگانے کی اجازت نہیں ہے ۔

4۔ایسا کرنا درست نہیں ، بلکہ عقد کے وقت جو قیمت مقرر ہو گی ، اسی کا اعتبار ہوگا  ، اگر خریدار  ڈالر کی صورت میں ادا کرے گا تو اتنے ہی ڈالر خریدار کے ذمہ لازم ہوں گے ، جتنے عقد کے وقت متعین طے ہوئے   تھے اور اگر خریدار مذکورہ ڈالر  کی قیمت  پاکستانی کرنسی میں ادا کرے گا تو ایسی صورت میں  ادائیگی کے دن ڈالر کی جو قیمت ہوگی  ،اس کا اعتبار ہوگا۔

5۔ مشین خریدار کے حوالے کرنا سائل (بائع) کی ذمہ داری ہے ، خریدار کے حوالے کرنے سے قبل اس پر جس قدر اخراجات آئیں گے ، وہ سب سائل(بائع) کے ذمہ ہوں گے ۔

6۔خریدار کے قبضہ میں آنے کے بعد جو نقصان ہوگا ، وہ اسی کے ذمہ ہوگا ، البتہ اس کے قبضہ میں آنے سے پہلے اگر کوئی نقصان ہو جاتا ہے تو وہ خریدار کے ذمہ نہیں ہوگا۔

7۔یہ شق درست نہیں ہے، اس لیے کہ  جب فروخت کنندہ مبیع خریدار کے حوالے کر دیتا ہے تو اس سے اس کا حق ختم ہوجاتا ہے اور خریدار   اس کا مالک بن جاتا ہے ، اس کے بعد فروخت کنندہ کے لیے مشین کو  پاسورڈ کے ذریعے لاک کرنے جائز نہیں ہوگااور  اس طرح    کے شرط  کی وجہ سے معاملہ بھی فاسد ہوجائے گا۔

8۔مکمل ادائیگی سے قبل بائع (بیچنےوالا) مذکورہ مشین کو  اپنے پاس  روک سکتا ہے ، لیکن یہ شرط لگانا  کہ :" جب تک  تم پوری ادائیگی نہیں کرو گے ، اس وقت تک  یہ چیز آگے کسی اور کو فروخت نہیں کرسکتے ہو "،شرعاً درست نہیں ہے۔اور ایسے شرط کی وجہ سے بیع بھی فاسد ہو جائے گی ۔

9۔ یہ شق درست نہیں ہے، کیونکہ  مبیع خریدار کو  حوالہ کرنے کے بعد خریدار اس کا مالک بن جاتا ہے، لہذا اس کی رضامندی کے بغیر فروخت کنندہ کے لیے اس کو  از خود بیچنا جائز نہیں  ہے ۔

10۔پوری ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے بیچنے والا مبیع(بیچی ہوئی چیز) کو اپنے پاس روکے رکھنے کا حق رکھتاہے  اور اگر خریدار ادائیگی سے عاجز ہو جائے تو بائع(بیچنے والا)   خریدار کی رضامندی سے سودا کینسل کر کے مشین وغیرہ  کسی اور  کو  بھی فروخت کرسکتا ہے ۔البتہ اگر ابتداءً اس طرح کی شرط لگادی جائے کہ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں بائع کو سودا کینسل کرنے کا حق ہوگاتو اس صورت میں بائع خریدار کی رضامندی کے بغیر بھی   ادائیگی نہ کرنے کی  وجہ سے سودا کینسل کرسکے گا۔

سنن  ابو داؤد میں ہے:

"حدثني عمرو بن شعيب، حدثني أبي، عن أبيه حتى ذكر عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل سلف وبيع، ولا شرطان في بيع، ولا ربح ما لم تضمن، ولا بيع ما ليس عندك۔"

(اول کتاب البیوع ، باب فی الرجل ما لیس عندہ :5 / 364 ، ط : دار الرسالۃ العالمیۃ)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه»، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله۔"

(کتاب البیوع ، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض : 5 /7 ، ط : دار الطباعۃ العامرۃ)

السنن الكبرى ميں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لايحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(كتاب الغضب ، باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارا ، 6 / 166 ، رقم : 11545 ، ط : دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:  

"(وأما) بيان ما يتعلق بهما من الأحكام :(فمنها) : أنه لا يجوز التصرف في المبيع المنقول قبل القبض بالإجماع، وفي العقار اختلاف... لما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه «نهى عن بيع ما لم يقبض (ومنها) أنه لا يجوز بيع ما ليس عند البائع إلا السلم خاصة لما روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن بيع ما ليس عند الإنسان ورخص في السلم۔"

(كتاب البيوع ، فصل : وأما حكم البيع : 5/ 235  ،ط : سعید)

مجلة الأحكام العدلية  میں ہے:

"(المادة 289) : المصارف المتعلقة بتسلم المبيع تلزم البائع وحده مثلا أجرة الكيال للمكيلات والوزان للموزونات المبيعة تلزم البائع وحده۔"

(الفصل الرابع في مئونة التسليم ولوازم إتما مہ : 1 / 58 ، ط : نور محمد ، كارخانه تجارت كتب ، آرام باغ ، كراتشي)

«درر الحكام في شرح مجلة الأحكام»میں ہے:

"(المادة 313) إذا تبايعا على أن يؤدي المشتري الثمن في وقت كذا وإن لم يؤده فلا بيع بينهما صح البيع وهذا يقال له ‌خيار ‌النقد۔"

(الباب السادس في بيان الخيارات ويشتمل على سبعة فصول، الفصل الثالث في حق خيار النقد: 1 / 309، ط: دار الجيل)

«حاشية ابن عابدين»  میں ہے:

"أن الواجب هو الثمن الأول سواء سماه أو لا، قال في الفتح: والأصل في لزوم الثمن، أن الإقالة فسخ في حق المتعاقدين، وحقيقة الفسخ ليس إلا رفع الأول كأن لم يكن فيثبت الحال الأول، وثبوته برجوع عين الثمن إلى مالكه كأن لم يدخل في الوجود غيره وهذا يستلزم تعين الأول، ونفي غيره من الزيادة والنقص وخلاف الجنس۔"

(باب الاقالۃ : 5 / 125 ، ط : سعید)

«مجلة الأحكام العدلية» میں ہے :

"(المادة 186) : البيع بشرط يقتضيه العقد صحيح والشرط معتبر. مثلا لو باع بشرط أن يحبس المبيع إلى أن يقبض الثمن فهذا الشرط لا يضر في البيع بل هو بيان لمقتضى العقد۔"

(الفصل الرابع في حق البيع بشرط : 39 ، ط : نور محمد ، كارخانه تجارتِ كتب ، آرام باغ  كراتشي)

«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» میں ہے :

"فأما إذا هلك كله بعد القبض، فإن هلك بآفة سماوية، أو بفعل المبيع أو بفعل المشتري لا ينفسخ البيع، والهلاك على المشتري، وعليه الثمن؛ لأن البيع تقرر بقبض المبيع، فتقرر الثمن، وكذلك إن هلك بفعل أجنبي لما قلنا، ويرجع المشتري على الأجنبي بضمانه، ويطيب له الفضل؛ لأن هذا الفضل ربح ما قد ضمن، وإن هلك بفعل البائع ينظر إن كان المشتري قبضه بإذن البائع أو بغير إذنه، لكن الثمن منقود أو مؤجل فاستهلاكه واستهلاك الأجنبي سواء۔"

(فصل فی حکم البیع : 5 / 239 ، ط : دار الکتب العلمیۃ)

«درر الحكام في شرح مجلة الأحكام» میں ہے :

"البيع بالثمن الحال أعني غير المؤجل للبائع أن يحبس المبيع إلى أن يؤدي المشتري جميع الثمن ولو كان ثمن المبيع بعضه معجلا فإذا كان حالا جميعه فللبائع وقف المبيع حتى يقبض ثمنه وإذا كان بعض الثمن معجلا وبعضه مؤجلا فللبائع حبس المبيع إلى أن يقبض البعض المعجل لأن حق الحبس لا يقبل التجزؤ (هندية) فعلى هذا لو بقي شيء قليل من الثمن في ذمة المشتري فللبائع أن يحبس جميع المبيع۔"

(الفصل الثاني في المواد المتعلقة بحبس المبيع : 1 / 263 ، ط : دار الجيل)

العناية شرح الهداية میں ہے :

"قال (ومن أفلس وعنده متاع لرجل بعينه) إذا اشترى متاعا من رجل فأفلس والمتاع باق في يده (فصاحب المتاع أسوة للغرماء فيه ...ثم للبائع خيار الفسخ لأنه عجز المشتري عن إيفاء الثمن والعجز) عن إيفاء الثمن (يوجب حق الفسخ قياسا على العجز عن إيفاء المبيع، والجامع بينهما أنه عقد معاوضة ومن قضيته المساواة."

(باب الحجر بسبب الدين : 9 / 278 ، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں