بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خرید وفروخت سے متعلق چند سوالات


سوال

بندہZee O Marketکے نام سے آن لائن کاروبار کرتا ہے جس کا طریقہ درج ذیل ہے

1.ہم کسی بھی ہول سیل والے سے رابطہ کرکے یہ ڈیل کرتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنی پراڈکٹ کے کم سے کم  ریٹ دیں

ہم اپنی کمپنی کے نام سے آپ کی پراڈکٹ سیل کرکے اپنا منافع رکھیں گے اورڈیلر اپنی چیز کی طے شدہ رقم ہم سے وصول کرے گا باقی ہم جتنے کی سیل کریں گے وہ ہمارا منافع ہوگا۔

اب یہ پروڈکٹ ہم خود کسٹمر کو بھی سیل کرتے ہیں اور باقی آن لائن کام کرنے والے افراد کو بھی دیتے ہیں کہ وہ بھی اس کو آگے سیل کریں اور جو ان کو آڈر ملے وہ ہم ان کے ایڈریس پر بھجوائیں گے۔

اور ہم ہر خریدار کو چیز کی تصاویر بھیج کر ریٹ طے کرتے ہیں اور اس کو خیار روئیت دیتے ہیں کہ اگر آپ کو ہماری چیز پسند نہ آئے تو ہمیں واپسی کرسکتے ہیں اور واپسی کا ڈاک خرچہ بھی ہمارے ذمہ ہوگا

حضرت ہم نے جو اپنے کام کا خاکہ بنایا ہے آپ کی خدمت میں پیش کررہاہوں تاکہ ہم بے غبار تجارت کر سکیں

ہم صرف اس مال کو فروخت کریں گے جس پر ہمارا قبضہ ہوگا ۔

2.وہ ری سیلرز جو ہم سے تصاویر لے کر مال آگے سیل کریں گے تو ان کیلئے ہم ایک بندہ متعین کریں گے جو ان کی طرف سے باقاعدہ قبضہ کرے گا۔

سوال1:کیا ہمارے متعین کردہ شخص کی ہمارے ری سیلر کی طرف سے وکالت کافی ہوگی یا ری سیلرز سے اجازت لیکر اس شخص کو وکیل بالقبض متعین کرنا ہوگا؟

سوال2:کیاایک ہی دفعہ ری سیلر کو بتادینا کافی ہوگا کہ آپ کے تمام آڈرز میں وکیل بالقبض فلاں شخص ہوگا یا ہر آڈر کیلئے ری سیلر سے الگ اجازت درکار ہوگی؟

سوال3:ہمارا کسٹمر یا ہمارے ری سیلر کے کسٹمر کو خیار روئیت حاصل ہوگا جب وہ پارسل وصول کریں تو تین دن کے اندر ہمیں واپس بھیجنا چاہیں تو بھیج سکیں گے اور واپسی کا خرچ بھی ہم ادا کریں گے۔

سوال4:ری سیلرز کے علاوہ ہم اپنے ساتھ کمیشن پہ لوگوں کو لائیں گے کہ وہ ہماری متعین کردہ قیمت پہ چیز سیل کریں جب ان کا کوئی آڈر آئے گا تو آڈر ڈن کرنے سے پہلے ہی اس کا کمیشن ان کو فوری واضح کردیا جائیگا کہ اس آئٹم میں اتنا کمیشن آپ کا ہوگا پہلے سے کوئی بروکر کے سامنے صرف ریٹیل قیمت ہوگی

اس کاٹوٹل پرافٹ کتنا ہے یہ بروکر کو نہیں بتایا جائیگا البتہ ان کے آڈر میں ان کا کمیشن ہم کیا دیں گے وہ واضح کریا جائیگا

5.کسٹمرز کیلئے لازم ہوگا کہ وہ ایڈوانس پیمنٹ ادا کریںکیش آن ڈلیوری والے آڈرز کی پیمنٹ میں 300 روپیہ کسٹمر ایڈوانس ادا کرے گا (اکثر کسٹمر کیش آن ڈلیوری کا آڈر کردیتے ہیں اور پھر پارسل وصول نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہمیں ڈلیوری چارجز خود سے اداکرنے پڑجاتے ہیں اس لئے ایڈوانس پیمنٹ یا پھر ایڈوانس 300 روپیہ وصول کرکے پارسل روانہ کریں گے) جب کہ ڈلیوری چارجز ہمیں تقریبا کم ہی ادا کرنے پڑتے ہیں تو ڈلیوری چارجز کی مد میں لی گئ رقم میں سے بقیہ رقم کا استعمال ہمارے لئے درست ہے؟

حضرت ان صورتوں میں اگر کسی طرح کا غبار یا کوئی قباحت ہو تو رہنمائی فرمادیں اور اس کی بے غبار صورت بھی واضح فرمادیں

تاکہ ہمارا اور ہمارے ساتھ کام کرنے والے افراد کا کسب یقینی طور پہ حلال اور جائز ہو۔

جواب

1، 2۔ صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ سائل پہلے ہول سیلر سے چیز خرید کر اپنے قبضے میں لیتا ہے، پھر اسے آگے فروخت کرتا ہے تو شرعاً ایسا کرنا جائز ہے، لیکن اگر سائل صرف ہول سیلر سے معاملات طے کرتا ہے، چیز پر قبضہ نہیں کرتا بلکہ آرڈر کرنے کے بعد ہول سیلر کو کہہ دیتا ہے اور وہ متعلقہ پتہ پر چیز ارسال کردیتا ہے اور سائل سے اس کی قیمت وصول کرلیتا ہے تو چوں کہ یہاں سائل نے ایسی چیز کا سودا کیا ہے جو اس کے قبضے میں نہیں ہے تو یہ خرید و فروخت جائز نہیں اور اس پر حاصل ہونے والا نفع بھی حلال نہیں ہوگا، اسی طرح سائل آگے آن لائن کام کرنے والوں کو یہ اشیاء فراہم کرتا ہے تو اگر ری سیلرز (آن لائن فروخت کرنے والے)آگے بیچنے سے پہلے خود قبضہ کر لیں تو ٹھیک، ورنہ ان کی اجازت سے تیسرے شخص (جو بائع کے اہل و عیال اور ملازم نہ ہو)کو وکیل بالقبض بنادے، اگر وہ  ہمیشہ کے لیے کسی شخص کو وکیل بالقبض بنانے کی اجازت دے دے تو ہر آڈر کے لیے الگ سے اجازت ضروری نہیں بلکہ یہی اجازت کافی ہوگی جب تک وہ اس کو برقرار رکھے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

والأصل فيه أن ‌كل ‌تصرف ‌صدر ‌من ‌الفضولي وله مجيز حال وقوعه انعقد موقوفا على الإجازة عندنا

(کتاب الاستحقاق، ص/103، ج/4، ط/المطبعة الکبری الامیریه)

تبیین الحقائق میں ہے:

قال - رحمه الله - (لا بيع المنقول) أي ‌لا ‌يجوز ‌بيع ‌المنقول ‌قبل ‌القبض لما روينا ولقوله - عليه الصلاة والسلام - «إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا

(باب التولیة، ص/80، ج/4، ط/المطبعة الکبری الامیریة)

3۔ صورتِ مسئولہ میں سائل کے کسٹمر کے لیے خیار رؤیت کو 3 دن کے ساتھ مقید کرنا جائز نہیں ، کیوں کہ خیار رؤیت کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں ہے البتہ چیز دیکھنے کے بعد راضی ہونے سے (قولاً اس بیع کی اجازت دے دے، یا عملاً رضامندی پائی جائے کہ اس میں تصرف بیع وغیرہ کرے)خیار رؤیت ساقط ہوجاتا ہے، لہذا ری سیلرز (آن لائن کام کرنے والے) نے جب اس چیز کو فروخت کردیا تو اس کا خیار رؤیت ساقط ہوگیا اب اگر اس کے کسٹمر نے خیار رؤیت کی بنیاد پر اس چیز کو واپس کیا تو اس ری سیلر کے ليے سائل كو  واپس کرنے کا حق نہیں ہے، البتہ سائل نے اپنی رضامندی سےکہا هے كه اگر كسٹمر نے خريداري سے  تين  دن کے اندر چیز واپس  کر دے تو میں واپس لے لوں گا یہ سائل کی طرف سے تبرع ہوگا  ۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

يسقط ‌خيار ‌الرؤية ‌في ‌الأصل بما يسقط به خيار الشرط وخيار العيب وهو ما يأتي :

1 - ما يدل على الرضا بالعقد صراحة أو دلالة: فالصريح أن يقول: أجزت  عقدا أو أمضيته أو رضيت به ونحو ذلك. والدلالة على الرضا: أن يتصرف في المعقود عليه بعد الرؤية لا قبلها تصرفاً يدل على الإجازة والرضا بالعقد كقبض الشيء، والانتفاع به، وبيعه أو إجارته، أو رهنه أوهبته

(ما یسقط به خیار الرؤیة، خیار الرؤیة، ص/3129، ج/4، ط/دار الفکر)

4۔ واضح رہے کہ کمیشن ایجنٹ کے لیے اجرت کا متعین ہونا ضروری ہے چاہے اجرت فیصد کے اعتبار سے متعین ہو یا ہر سودا کرنے پر کوئی ایک رقم متعین ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں پہلے ہی سے کمیشن ایجنٹ کی اجرت متعین کرنا ضروری ہے، آرڈر لانے کے بعد کمیشن متعین کرنا درست نہیں، اس میں نزاع کا اندیشہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

(‌تفسد ‌الإجارة ‌بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل۔

(كتاب الاجارۃ، ص/46، ج/6، ط/سعید)

5۔ کیش آن ڈلیوری والے آڈرز میں سائل کے لیے ایڈوانس300 روپے  ڈلیوری چارجز کے طور پر لینا جائز ہے، البتہ جس صورت میں ڈلیوری والے کو چارجز کم ادا کرنے ہوں تو بقیہ رقم کسٹمر کو واپس کرنا ضروری ہے، سائل کے لیے اس کا استعمال کرنا جائز نہیں۔

مسند احمد میں ہے:

عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: کنت آخذاً بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم في أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس، فقال: یا أیها الناس! ألا لاتظلموا ، ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، إنه لایحل مال امرء إلا بطیب نفس منه‘‘.

(مسند الکوفیین، حدیث عم أبی حرة الرقاشی، رقم الحدیث: 20714،ج:5،ص:72، ط:مؤسس قرطبة القاہرة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں