بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھڑی فصل کی خرید و فروخت کا حکم / باغات کو ٹھیکہ پر لینے کا حکم


سوال

 کھڑی فصل  کی  خرید  و  فروخت شرعی طور پر کیسی  ہے ؟ اگر ناجائز ہے تو پھلوں کے باغات کا ٹھیکہ لینا شرعی طور پر کیسا ہے ؟

جواب

کھڑی فصل  کی خرید فروخت جائز ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ سودے کے وقت فصل کو  کھیت پر  چھوڑے رہنے کی شرط نہ لگائی جائے ،کیوں کہ یہ شرط لگانا جائز نہیں ہے، لہذا عقد مطلقًا کیا جائے، عقد کے بعد اگر  مالک کی اجازت ور ضامندی سےفصل  کو کھیت  پر  چھوڑ دیا جائے تو شرعًا اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر مالک فصل کاٹنے کا کہے تو اسے فصل باقی رکھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

باغات کو ٹھیکے  پر  لینے  کی چند صورتیں ہیں :

1-  باغ کے درختوں  پر   پھل ظاہر نہ ہوئے ہوں، بلکہ صرف پھول لگے ہوئے ہوں تو ایسے باغ کے پھلوں کی خرید و فروخت نا جائز ہے، یہ سودا باطل ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع حرام ہے۔

البتہ بعض فقہاء کرام نے ضرورت اور تعامل کی بنا  پر  اس کے جواز کی  دو صورتیں بیان فرمائی ہیں:

پہلی صورت  یہ  ہے کہ جس شخص کو باغ ٹھیکے  پر دینا مقصود ہو، باغ کا مالک  اس شخص کو باغ "مساقاۃ " (یعنی پیداوار کے  حصہ معینہ)  پر سیرابی کے لیے دے دے،اپنے  لیےپیداوار کا  کم حصہ  رکھے اور اکثر  اس کے لیے  رکھے ،مثلًا ایک فیصد حصہ مالک باغ کا ہو اور باقی نناوے فیصد  حصے ٹھیکیدار  کے ، یا کوئی بھی نسبت باہمی رضامندی سے طے کر لیں اور پھر اسی شخص کو زمین ایک بڑی رقم جو  (پھلوں کی قیمت کے مساوی ہو ) کے بدلے  ٹھیکہ پر  دے دے اور باغ کے پھل میں جو حصہ مالک نے رکھا تھا  وہ ٹھیکہ پر لینے والے کے لیے مباح کردے۔ اب باغ  کی دیکھ  بھال  کی ذمہ داری ٹھیکہ پر لینے والے کی ہوگی ۔اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ جس وقت درختوں پر پھل ظاہر نہ ہوئے ہوں، بلکہ محض پھول ہوں تو اس وقت بیع نہ کی جائے، بلکہ وعدہ بیع کیا جائے،  مثلًا ، بائع (فروخت کنندہ) مشتری (خریدار) کو کہے کہ جب پھل  قابل بیع ہو جائیں گے تو میں اتنی رقم کے عوض وہ پھل آپ کو بیچ دوں گا اور خریدار اس بات کا وعدہ کرے کہ میں اس رقم کے عوض یہ پھل خرید لوں گا، پھر جب پھل بیع کے قابل ہوجائیں تو خرید ار باقاعدہ بیع( ایجاب و قبول) کے ذریعے ان پھلوں کو خرید لے اور اس  وقت باہمی رضامندی سے سابقہ قیمت پر بھی بیع ہو سکتی ہے  اور  نئی قیمت  پر  بھی ہو سکتی  ہے ۔

باقی  وعدہ بیع  کے بعد  سے خریداری  کے  وقت تک باغ کی دیکھ بھال کا  خرچہ خریدار پر ڈالنا  درست نہیں،  بلکہ خرچہ باغ کے مالک پر ہی ہوگا، البتہ باغ کا مالک چاہے تو پھل مہنگے دام فروخت کر ے؛ تاکہ خرچہ بھی قیمت  کے ساتھ وصول ہوجائے۔

2-  باغ کے درختوں پر اگر پھل ظاہر ہو چکے ہوں، لیکن چھوٹے ہونے کی وجہ سے وہ کھانے کے قابل نہ ہوں تو عرف و تعامل کی وجہ سے ایسے باغ کے پھلوں کی خرید و فروخت کی گنجائش ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ عقد کے وقت ان پھلوں کو درختوں پر چھوڑنے کی شرط نہ لگائی جائے؛ کیوں کہ یہ شرط لگانا جائز نہیں ہے، لہذا عقد مطلقًا کیا جائے، عقد کے بعد اگر مالک کی اجازت ور ضامندی سے ان پھلوں کو درختوں پر چھوڑ دیا جائے تو شرعًا اس کی گنجائش ہے۔

3- باغ ٹھیکہ پر لیتے وقت  پھل اتنے چھوٹے ہوں کہ وہ انسانوں اور جانوروں دونوں میں سے کسی  کے لیے بھی قابل انتفاع نہ ہوں، ان کی بیع کے جواز اور عدمِ  جواز میں مشائخ احناف کے در میان اختلاف ہے،بعض فقہاء کرام  ایسی صورت میں پھلوں کی بیع کو ناجائز قرار دیتے ہیں، لیکن  دیگر حضرات نے  اس کی اجازت دی ہے ۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا أنس بن مالك رضي الله عنه عن النبي أنه نهى عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها وعن النخل حتى يزهو قيل وما يزهو قال يحمار أو يصفار."

(صحيح البخاري 1/ 169ط: دار طوق النجاة)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(ومن باع ثمرة بارزة) أما قبل الظهور فلايصح اتفاقًا."

(قوله: أما قبل الظهور) أشار إلى أن البروز بمعنى الظهور، والمراد به انفراد الزهر عنها وانعقادها ثمرة وإن صغرت."

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۵۴،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی  میں ہے:

"وعندنا إن كان بحال لاينتفع به في الأكل، ولا في علف الدواب فيه خلاف بين المشايخ، قيل: لايجوز،و نسبه قاضي خان لعامة مشايخنا، والصحيح أنه يجوز؛ لأنه مال منتفع به في ثاني الحال إن لم يكن منتفعًا به في الحال."

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۵۵،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن شرط تركها على الأشجار فسد) البيع كشرط القطع على البائع حاوي. (وقيل:) قائله محمد. (لا) يفسد (إذا تناهت) الثمرة للتعارف فكان شرطا يقتضيه العقد (وبه يفتى) بحر عن الأسرار، لكن في القهستاني عن المضمرات أنه على قولهما الفتوى فتنبه. قيد باشتراط الترك لأنه لو شراها مطلقا وتركها بإذن البائع طاب له الزيادة وإن بغير إذنه تصدق بما زاد في ذاتها وإن بعدما تناهت لم يتصدق بشيء.

(قوله: مطلقًا) أي بلا شرط ترك أو قطع، وظاهره ولو كان الترك متعارفا مع أنهم قالوا: المعروف عرفا كالمشروط نصا، ومقتضاه فساد البيع وعدم حل الزيادة. تأمل."

(کتاب  البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۵۶،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"فيستأجر أرضه الخالية من الأشجار بمبلغ كثير، ويساقي على أشجارها بسهم من ألف سهم.

(قوله: بمبلغ كثير) أي بمقدار ما يساوي أجرة الأرض وثمن الثمار (قوله: ويساقي على أشجارها) يعني قبل عقد الإجارة وإلا كانت إجارة الأرض مشغولة فلاتصح كما سيأتي."

(کتاب الاجارہ ج نمبر ۶ ص نمبر ۸ ،ایچ ایم سعید)

وفي الفتاوى الهندية :

"ثم الزرع إذا لم يدرك فأراد جواز الإجارة في الأرض فالحيلة في ذلك أن يدفع الزرع إليه معاملة إن كان الزرع لرب الأرض على أن يعمل المدفوع إليه في ذلك بنفسه وأجرائه وأعوانه على أن ما رزق الله تعالى من الغلة فهو بينهما على مائة سهم من ذلك للدافع وتسعة وتسعون سهما للمدفوع إليه ثم يأذن له الدافع أن يصرف السهم الذي له إلى مؤنة هذه الضيعة أو إلى شيء أراد ثم يؤاجر الأرض منه...وكذلك الحيلة في الشجر والكرم يدفع الشجر والكرم معاملة. كذا في المحيط."(4/ 446ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں