بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدی ہوئی چیز کا بائع کے قبضے میں عیب دار ہوجانے پر بیع کا حکم


سوال

میں نے دس  جنوری 2022 کو ایک مکان (G+2) اپنے بیٹے کے پیسے سے خریدا،جو میرے بیٹے کےہی نام پر ہے،اس مکان کے چار مالکان تھے،ان سب نے پورا گھر جو چھ پورشنز پر مشتمل تھا( ہر ایک فلور پر دو پورشنز )آپس کی رضا مندی سے ہمیں فروخت کیا،سیل ایگریمنٹ میں دس فیصد بیعانہ ادا کردیا گیا،پھر مکان کا قبضہ ملنے سے پہلے ہی مذکورہ مکان کا ایک پورشن سندھ بلڈنگ اتھارٹی کنٹرول نے توڑدیا،جب مجھے یہ خبر ملی تو میں نے بنوری ٹاؤن سے زبانی مسئلہ دریافت کیا،انہوں نے کہا کہ فروخت کنندہ  وہ پورشن خریدار کو بنانے کر دینے کے ذمہ دار ہیں،یا اگر چاہیں تو بنائی کی قیمت دےدیں،یہ بات جب میں نے ان لوگوں سے کی،اور اسٹیٹ ایجنٹ سے کہی تو وہ کہنے لگے کہ تم جھوٹے اور بے ایمان ہو،اور اسٹیٹ ایجنٹ کہنے لگا کہ بس مجھے میرا کمیشن دو۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ مذکورہ مکان کا قبضہ سے پہلےجو نقصان ہوا ہے،وہ کس کے ذمے ہے؟

کیا اسٹیٹ ایجنٹ کی یہ ذمہ داری  نہیں کہ وہ تمام معاملات کلیئر کروائے اور پھر اپنے کمیشن کا مطالبہ کرے؟

نوٹ:مذکورہ مکان کا قبضہ اب ہمیں مل چکا ہے،ہم نے صرف دس لاکھ روکے ہوئے ہیں جب تک کہ معاملہ کا فیصلہ ہوجائے،یہ بھی واضح رہے کہ ایک پورشن فروخت کرنے والوں میں سے ایک کی سابقہ بیوی نے تڑوایا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سندھ بلڈنگ اتھارٹی والے یہ مکان غیر قانونی تعمیرات کی بناء پر توڑ کے گئے ہیں اور سائل کو مکان خریدتے وقت اس کے غیر قانونی ہونے کا علم بھی تھا تو اس کے بعد نہ سائل کو فروخت کنندہ سے نقصان کا تاوان لینے کا اختیار ہےا ور نہ ہی بیع ختم کرنے کااختیار حاصل ہے،اور اگر سائل کو اس تعمیر کے غیر قانونی ہونے کا علم نہیں تھابلکہ لا علمی کی بناء پر خریدلیا اور پھر قبضہ سے پہلے ہی مکان کا ایک پورشن توڑ دیا گیا تو اس صورت میں سائل کو اختیار ہے کہ مکان کو لینا چاہے تو فروخت کنندہ سے یہ مکان پوری قیمت دے کر خرید لے اور اگر چاہے تو یہ سودا ختم کردے،اور اگر یہ تعمیر غیر قانونی نہیں تھی بلکہ سائل کے بیان کے مطابق ایک خاتون نے اس کو تڑوایا ہے تو اس صورت میں نقصان کی ذمہ دار یہ خاتون ہوں گی،سائل اگر سودا باقی رکھنا چاہتا ہے اور اس کے پاس شرعی شہادت موجود ہو کہ مذکورہ خاتون نے یہ مکان تڑوایا ہےتو اس خاتون کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرکے اس سے اپنا نقصان وصول کرسکتا ہے۔

"رد المحتار"میں ہے:

"وكذا كل مفيد رضا بعد العلم بالعيب يمنع الرد والأرش."

مطلب فيما يكون رضا بالعيب ويمنع الرد. قوله بعد العلم بالعيب: أي علمه بكون ذلك عيبا: ففي الخانية: لو رأى بالأمة قرحة ولم يعلم أنها عيب فشراها ثم علم أنها عيب له ردها؛ لأنه مما يشتبه على الناس فلا يثبت الرضا بالعيب. اهـ. وقدمنا أنه لو كان مما لا يشتبه على الناس كونه عيبا ليس له الرد. وفي نور العين عن المنية قال البائع بعد تمام البيع قبل القبض تعيب المبيع فاتهمه المشتري في إخباره ويقول: إن غرضه أن أرد عليه فقبضه المشتري لا يكون رضا بالعيب ولا تصرفه إذا لم يصدقه، لكن الاحتياط أن يقول له: لا أعلم بذلك وأنا لا أرضى بالعيب، فلو ظهر عندي أرده عليك. اهـ قوله والأرش: أي نقصان العيب."

(ص:34،ج:5،کتاب البیوع،باب خیار العیب،ط:سعید)

وفيه ايضا:

"حدث عيب آخر عند المشتري بغير فعل البائع، فلو به بعد القبض رجع بحصته من الثمن ووجب الأرش وأما قبله فله أخذه أو رده بكل الثمن مطلقا.

قوله وأما قبله إلخ: أي وأما إذا كان حدوث العيب الثاني بفعل البائع قبل القبض خير المشتري سواء وجد به عيبا أو لا بين أخذه أي مع طرح حصة النقصان من الثمن وبين رده وأخذ كل الثمن،...وكذا لو كان بفعل أجنبي فإنه يخير ولكنه إن اختار الأخذ يرجع بالأرش على الجاني...وأشار إلى أن حدوثه قبل القبض بفعل كاف في التخيير بين الأخذ والرد سواء كان به عيب قديم أو لا فافهم."

(ص:16،ج:5،کتاب البیوع،باب خیار العیب،ط:سعید)

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"وإن هلك بفعل أجنبي فعليه ضمانه، لا شك فيه، والمشتري بالخيار إن شاء فسخ البيع، واتبع البائع الجاني بضمان ما جنى، وإن شاء اختار البيع، واتبع الجاني بالضمان، وعليه جميع الثمن، وأيهما اختار، فالحكم فيه بعد ذلك على ما ذكرنا في إتلاف الأجنبي كل المبيع، والله عز وجل أعلم. هذا إذا هلك بعض المبيع قبل القبض."

(ص:241،ج:5،کتاب البیوع،فصل فی حکم البیع،ط:دار الکتب العلمیة)

"الأشباه والنظائر"میں ہے:

"‌‌القاعدة التاسعة عشرة: ‌إذا ‌اجتمع المباشر والمتسبب أضيف الحكم إلى المباشر."

(ص:135،الفن الأول،القاعدة التاسعة عشر،ط:دار الكتب العلمية)

"ألعقودالدرية في تنقيح فتاوي الحامدية"میں ہے:

"قال في القنية من الغصب من باب ‌ضمان ‌الساعي والنمام بخ: شكا عند الوالي بغير حق... أقول: حاصله أنه إذا شكاه بغير حق يضمن ما أتلفه الوالي أو أعوانه من عضو أو من مال دون النفس؛ لأن الشكاية لا تفضي إلى الموت غالبا بخلاف العضو أو المال؛ لأن الغالب إفضاؤها إليه فلذا ضمنه الساعي وهذا خارج عن قاعدة الأشباه المذكورة أفتى به المتأخرون على خلاف القياس زجرا عن السعاية بغير حق."

(ص:254،ج:2،کتاب الجنايات، ط:دار الکتب العلمیة)

2)جہاں تک اسٹیٹ ایجنٹ کا تعلق ہے،اگر اس سے مراد(Broker) ہے کہ جس  کی ذمہ داری عرف میں صرف یہ ہوتی ہےکہ وہ بائع اور مشتری کی آپس میں ملاقات کرائے،اور سودا،بائع اور مشتری خود طے کریں،تو اس صورت میں سودا طے ہوجانے کے بعد وہ اجرت کا مستحق ہوجاتاہے،اوراگر اس سے مراد(Commission Agent) ہے،کہ جس کی ذمہ داری بائع یا مشتری کی طرف سے سودا کرانا بھی ہوتی ہے،تو جب تک وہ سودا مکمل نہ کرادےاس وقت تک وہ اجرت کا مستحق نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں،مذکورہ بالا ایجنٹ کی دو قسموں میں  سے اگر پہلامراد ہے،تو صرف ملاقات کرانے اور سودا طے ہوجانے سے  وہ اجرت کا مستحق ہوچکا ہے،اور اگر دوسرا مراد ہے،تو بھی سودا مکمل کرانے کی وجہ سے وہ اجرت کا مستحق ہوچکا ہے،لہذا بہر صورت سائل کے لیے اس کا کمیشن روکنا جائز نہیں ہے۔

"مرقاة المفاتيح"میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أعطوا الأجير أجره قبل ‌أن ‌يجف ‌عرقه...والمراد منه المبالغة في إسراع الإعطاء وترك الإمطال في الإيفاء."

(ص:1993،ج:5،کتاب البیوع،باب الإجارة،ط:دار الفكر،بيروت)

"رد المحتار"میں  ہے:

"وللمؤجر طلب الأجر للدار والأرض كل يوم وللدابة كل مرحلة إذا أطلقه، ولو بين تعين وللخياطة ونحوها من الصنائع إذا فرغ وسلمه فهلكه قبل تسليمه يسقط الأجر وكذا كل من لعمله أثر، وما لا أثر له کحمال له الأجر كما فرغ وإن لم يسلم...وهل المراد بالأثر عين مملوكة للعامل كالنشاء والغراء أم مجرد ما يعاين ويرى؟ قولان أصحهما الثاني."

(ص:14,17،ج:6،کتاب الإجارة،شروط الإجارة،ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(ص:63،ج:6،کتاب الإجارة،مطلب في اجرة الدلال،ط:سعيد)

"ألهداية في شرح بداية المبتدي"میں ہے:

"لأن بالقبض تتم الصفقة في خيار العيب وفي خيار الرؤية والشرط لا تتم به."

(ص:41،ج:3،کتاب البیوع،باب خیار العیب،ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں