بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خریدے ہوئے پلاٹ پر زکوۃ کا حکم


سوال

میں نے سال 2019ء میں ایک چھوٹا سا پلاٹ بعوض چھ  لاکھ  پچاس ہزار   روپے خریداتھا، دو  لاکھ  روپے  کے  قریب  قریب قرض بھی اس فلیٹ کو خریدنے کے لیے لیاتھا، ابھی 23 ہزار روپے قرض ادا کرنا باقی ہے، کبھی دل کہتا ہےکہ میں اسے بیچ دوں، اور کبھی یوں سوچتاہوں کہ ابھی نہیں، بیوی کے پاس ساڑھے چھ تولے سونا بھی ہے، میری تنخواہ پچاس ہزار روپے ہے، مجھے کچھ پتہ نہیں چل رہاہے کہ میرے اوپر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟ اگر واجب ہے تو کیا آج سے زکوۃ واجب ہے یا شادی کے بعد سے؟ کیوں کہ شادی کے بعد سے میری بیوی کے پاس ساڑھے  چھ تولے سونا بھی ہے، یا 2019ء سے زکوۃ واجب ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے پلاٹ خریدتے وقت اسے بیچنے کی نیت تھی اور قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد  ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت یا اس سے زیادہ بچتاہو تو سائل  صاحبِ نصاب ہے، لہٰذا جب سے وہ صاحبِ نصاب ہوا ہے، اس پر  سالانہ زکوٰۃ  ادا کرنا واجب ہے، اگر سابقہ سالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو اس  سال کے ساتھ ساتھ گزشتہ سالوں کی زکوۃ  ادا کرنا بھی واجب ہے، اور ہرسال کی زکوۃ اِسی سال کی قیمت کے اعتبار سے لازم ہے، لیکن اگر سائل نے خریدتے وقت اسے بیچنے کی  نیت نہیں کی تھی، بلکہ اس پر گھر بنانے یا کرایہ پر دینے کی نیت کی تھی یا کوئی نیت نہیں تھی تو ان صورتوں میں سائل پر اس پلاٹ کی زکوۃ واجب نہیں ہے، اگر چہ بعد میں سائل اسے بیچنے کی نیت کرے، البتہ بیچنے کے بعد حکم الگ ہوگا، وہ اس وقت معلوم کرے۔

اور سائل کی بیوی کی ملکیت میں جو سوناہے، وہ بیوی کی ملکیت ہے، اس کی وجہ سے سائل پر زکوۃ واجب نہیں ہے،  اور بیوی کے پاس اگرساڑھے چھ تولے سونا کے علاوہ کوئی رقم ہو تو ضرورت کا خرچہ  نکالنے کی بعد جو رقم بچ جائے تو اسے سونے کے ساتھ ملایاجائے، اگر سونا اور رقم دونوں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزرگیا ہو تو  اس کا ڈھائی فیصد زکوۃ نکالنا بیوی پر واجب ہے۔

اور اگر بیوی کے پاس ساڑھے چھ تولے سونا کے علاوہ چاندی، مالِ تجارت یا کوئی رقم نہیں ہے تو پھر سائل کی بیوی پر بھی زکوۃ واجب نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والأصل أن ما عدا الحجرین والسوائم إنما یزکي بنیة التجارة ..." الخ

(کتاب الزکوة،ج:3، ص:194، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"‌وليس ‌في ‌دور ‌السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة؛ لأنها مشغولة بحاجته الأصلية وليست بنامية".

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:262، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما ‌إذا ‌كان ‌له ‌الصنفان ‌جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا".

(کتاب الزکوۃ، فصل فی مقدار الزکوۃ، ج:2، ص:19، ط:دار الکتب العلمیة)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"اتفق الفقهاء على أنه يشترط في زكاة مال التجارة أن يكون قد نوى عند شرائه أو تملكه أنه للتجارة، والنية المعتبرة هي ما كانت مقارنةً لدخوله في ملكه؛ لأن التجارة عمل فيحتاج إلى النية مع العمل، فلو ملكه للقنية ثم نواه للتجارة لم يصر لها، ولو ملك للتجارة ثم نواه للقنية وأن لايكون للتجارة صار للقنية، وخرج عن أن يكون محلاً للزكاة ولو عاد فنواه للتجارة لأن ترك التجارة، من قبيل التروك، والترك يكتفى فيه بالنية كالصوم".

(ج:23، ص:271، ط: دار السلاسل)

درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"قوله: ‌فاضلا ‌عن ‌حاجته ‌الأصلية) أقول ومن حوائجه الأصلية حوائج عياله فلا بد أن يكون النصاب فاضلا عن حوائجه وحوائج عياله ولم يبين المصنف مقدار الحاجة إشارة إلى ما عليه الفتوى من أن العبرة للكفاية من غير تقدير فيعتبر ما زاد على الكفاية له ولعياله كذا في مختصر الظهيرية".

(کتاب الزکوۃ، باب الفطرۃ، ج:1، ص:193، ط:دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144405101820

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں